مُنفرد مُصور، ’’ایم رفیق‘‘ جن کے فن پارے خامشی کو زباں دیتے ہیں

April 07, 2019

ملک کے طول وعرض میں بے شمار مصوّر،آرٹسٹ ہیں، جو قلم، پینسل، برش اور رنگوں کی مدد سے آرٹ کے نادر نمونے/ فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔ تاہم، ایسے تصویر کش بھی کم نہیں، جو روایتی ڈگر سے ہٹ کر فن کا مظاہرہ کرتے، طرح طرح کے تخلیقی نمونے پیش کرتے ہیں۔ ایم رفیق کا شمار بھی ایسے ہی مصوّر ین میں ہوتا ہے، جنہوںنے اسلامی خطّاطی کے علاوہ آرٹ کی دیگر جہتوں میں طبع آزمائی کرکے قدرتی حُسن اور دینی عقائد کو بڑی خُوب صُورتی سے یک جا کیا۔ ایم رفیق ایک مستند مصوّر ہونے کے ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں، اور جو بات تصاویر کی زبانی نہیںکرپاتے، اشعار کی زبان میںبیان کردیتے ہیں۔ وہ اگرچہ زیادہ ترواٹر کلر اور آئل پینٹ سے تصویر و تحریر کو ملا کر ایک اچھوتا رنگ دیتے ہیں۔ تاہم، اُن کا ایک منفرد کام یہ بھی ہے وہ کہ بڑی مہارت سے دہکتے ہوئے کوئلے سے روٹی پر معروف شخصیات کی خُوب صُورت تصاویر بنالیتے ہیں۔ 1974ء تک جامعہ کراچی کے شعبہ نباتیات سے بہ حیثیت ٹیکنیکل آرٹسٹ منسلک رہنے کے بعدانہوںنے 1978ء میں لیبیا کے شہر طرابلس کی جامعہ الفاتح میںبھی خدمات انجام دیں۔ وہاںڈاک ٹکٹس کے متعدد ڈیزائن تیار کیے۔ 1990ء کے عشرے میںکارنیج یونی ورسٹی، امریکا نےممتاز آرٹسٹوں کی ٹاپ لسٹ میںان کا نام بھی شامل کیا۔ایم رفیق نے سائنسی نوعیت کی متعدد کتب کی تصاویر بھی تیار کیں، جنہیںبے حد پسند کیا گیا۔

گزشتہ دنوں ایک ملاقات میںانہوںنے جنگ سے بات چیت کرتےہوئے بتایا کہ ’’میںنے فنِ مصوّری باقاعدہ نہیںسیکھا۔ بچپن میں خوش خط تھا، توجب کچھ فارغ وقت ملتا، معنی خط کھینچتا اور ان پر غور کرتا رہتا۔ اُڑتے بادلوں کو گھنٹوں بیٹھ کر دیکھتا اور ان میںتخیّل تلاش کرتا، پھر بادلوں کی حرکات سے جو تصاویر بنتے دیکھتا، وہ کاغذ پر اتارنے کی کوششکرتا، رفتہ رفتہ یہ میرا مشغلہ بن گیا اور اسی مشغلے نے تجریدی آرٹ کی بنیاد فراہم کی۔‘‘ ایم رفیق اگرچہ سیکڑوں تصاویر بناچکے ہیں، لیکن اب تک اپنے فن سے پوری طرحمطمئن نہیں۔ انہوںنے اسلامی اقدار و روایات کو نت نئے انداز سے اجاگرکرنے کے لیے بھی اپنے فن کا استعمال کیا۔ اذان کے الفاظ کو فنِ خطّاطی میںاس طرحسمویاکہ دیکھنے والا دیکھتا رہ جائے۔ علاوہ ازیں آیاتِ ربّانی کے ساتھ، نماز کی ادائیگی، فریضہ حج کےمفہوم، اسلامی تہواروں خصوصاً عیدالفطر اور عیدالاضحی کو اپنے فن پاروں میںاس طور اجاگر کیا کہ ہر دیکھنے والے پر اہمیت خوب واضح ہوجائے، پھر بغیر رنگ و برش کے روٹی پر دہکتے انگاروں سے مختلف شخصیات کی شبیہہ اتارنا بھی ان ہی کا خاصّہ ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’میںنے روٹی کھاتےہوئے اس کے کچھ جلے ہوئے حصّے دیکھے، تو ذہن میں خیال آیا کہ روٹی پکنے کے دوران دہکتے انگاروں سے نقوش و خطوط ترتیب دے کر مختلف شبیہیں بنائی جاسکتی ہیں، لہٰذا اپنی اسی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے سب سے پہلے بانئی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر بنائی،جو حیرت انگیز طور پر بہت واضح انداز میں روٹی پر ابھر آئی۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش، میرے تخیّل ہی کی جدّت تھی۔ اس تصویر کو معروف مصوّر صادقین نے بھی بے حد پسند کیا اوربارہ سو قیمتی فن پاروں کے مقابلے میں اوّل انعام سے نوازا۔ اس کے بعد متعدد بادشاہوں اور اہم شخصیات کی بے شمار تصاویر بنائیں۔ دنیائے مصوّری میں میری یہ اختراع غالباً دنیا کی واحد تخلیق ہے، جو کاغذ، کینوس اور رنگ کے بغیر وجود پاتی ہے۔‘‘

روٹی پر انگاروں سےبنائی گئی شبیہ

ایم رفیق حروف کی ترقیم سے آشنا، خیالات کی تجسیم کرنا جانتے ہیں۔ وہ الفاظ کی تفہیم سے بھی آشنا ہیں اور احساسات کی تعظیم سے بھی۔ وہ دھنک کے سبھی رنگوں کی توقیر کرتے ہوئے اپنے تصوّر کو تصویر کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ وہ ایک منفرد فن کار ہیں۔ ان کے فن پارے خامشی کو زباں دیتے ہیں۔ ایم رفیق، آج کل کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ نباتات میںسائنسی کتابوں اور مضامین کی تصاویر پر کام کررہے ہیں۔