پارلیمانی تاریخ کا اہم باب!

May 15, 2019

کشیدگی کے ایسے ماحول میں جب باہمی اختلافات کی تیز آندھی نے ملک کا سیاسی منظر گرد آلود کر رکھا ہے، حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں میں محاذ آرائی زوروں پر ہے، اسمبلیوں کے اندر اور باہر ایک دوسرے کے خلاف ناخوشگوار لفظی جنگ جاری ہے، ایک دوسرے کی بات سنجیدگی سے سننے اور اس پر غور کرنے کی رواداری ناپید ہے، پیر کو قومی اسمبلی میں ایک اہم قومی معاملے پر حکومتی اور حزبِ اختلاف کی تمام پارلیمانی پارٹیوں کی جانب سے اتحاد و یک جہتی اور فکر و عمل میں ہم آہنگی کا ایک شاندار مظاہرہ دیکھنے میں آیا جب سابق فاٹا کے علاقوں پر مشتمل قبائلی اضلاع کی قومی و صوبائی نشستیں بڑھانے کے لئے آئین میں 26ویں ترمیم کا اور وہ بھی ایک غیر سرکاری رکن کا پیش کردہ بل مکمل اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ یہ بل پشتون تحفظ موومنٹ کے آزاد رکن محسن داوڑ نے پیش کیا تھا جس کے مطابق قومی اسمبلی میں ان اضلاع کی نشستیں 6سے بڑھا کر 12اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں 16سے بڑھا کر 24کر دی گئیں۔ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی پرائیویٹ ممبر کا بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ بل کے حق میں 288ووٹ آئے جبکہ کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔ اس سے قبل عام طور پر حکومتی ارکان کے بل ہی منظور کئے جاتے تھے۔ یہ بل ایک ایسی جماعت سے وابستہ رکن نے پیش کیا تھا جس کےبارے میں سیکورٹی کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں لیکن جمعیت علمائے اسلام سمیت جو اِس معاملے میں بہت زیادہ حساس ہے، تمام سیاسی پارٹیوں نے قومی مفاد میں اِس کی حمایت کی۔ وزیراعظم عمران خان نے جو قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجود تھے، بل کی متفقہ منظوری پر تمام سیاسی جماعتوں کے کردار کو سراہا اور کہا کہ آئینی ترمیم سے قبائلی عوام کو قومی دھارے میں نمائندگی ملے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی طویل جنگ سے جو تباہی پھیلی ہے، صوبہ خیبر پختونخوا تنہا اس کا ازالہ نہیں کر سکتا اس لئے دوسرے صوبے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں تاکہ پسماندہ رہ جانے والے علاقوں کو ملک کے دوسرے حصوں کے برابر لاکر ان کا احساس محرومی دور کیا جا سکے۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے بل کی متفقہ منظوری پر کہا کہ اہم ملکی امور پر اتفاق رائے پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ میثاقِ معیشت اور دیگر معاملات پر بھی اسی طرح اتفاق ہونا چاہئے۔ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا بل مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں منظور ہوا تھا۔ جسے اب عملی شکل دی جا رہی ہے۔ صوبائی اسمبلی میں قبائلی اضلاع کی نشستوں کے انتخابات 24جون کو ہونا تھے اور الیکشن کمیشن اِس سلسلے میں انتخابی شیڈول بھی جاری کر چکا تھا۔ زیادہ بہتر یہی تھا کہ یہ شیڈول متاثر نہ ہوتا اور الیکشن مقررہ وقت پر ہوتے لیکن نشستوں میں اضافے کی وجہ سے متذکرہ بل میں الیکشن کے لئے کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 18ماہ کی شرط رکھی گئی ہے تاکہ نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لئے وقت مل جائے۔ اب کوشش کی جانی چاہئے کہ بل کی سینیٹ میں منظوری دیگر آئینی تقاضوں کی تکمیل، حلقہ بندیوں اور نیا الیکشن شیڈول طے کرنے میں زیادہ تاخیر نہ کی جائے اور انتخابات کم سے کم مدت میں کرا دیئے جائیں۔ قبائلی اضلاع کو قومی دھارے میں لانے کے لئے آئینی ترمیم صحیح سمت میں درست قدم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کو پارلیمانی عمل میں مناسب حصہ دیئے بغیر ملکی ترقی کا خواب مکمل نہیں ہو سکتا۔ اِس معاملے میں سیاسی پارٹیوں نے اتحاد و اتفاق کا جو مظاہرہ کیا اور تحفظات کے باوجود کسی نے بھی بل کی مخالفت نہیں کی، اسے پارلیمنٹ کا کارنامہ سمجھنا چاہئے۔ مستقبل میں بھی قومی ایشوز پر سب کو ایسی ہی سوچ اختیار کرنا چاہئے اور وسیع تر قومی مفاد کو پارٹی مفادات پر ترجیح دینا چاہئے۔ قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے اور بہاولپور صوبے کی بحالی کے معاملات بھی زیر غور ہیں پھر بی این پی (مینگل) قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان کی نشستوں میں اضافے کا بل بھی لانے والی ہے، اِن معاملات پر بھی اِسی سیاسی ہم آہنگی سے کام لیا جانا چاہئے۔