نام ہی تو سب کچھ ہے

May 23, 2019

اگر شہروں، سڑکوں ،گلیوں، پارکوں اور عمارتوں کے اسلامی ناموں کا کوئی تعلق مذہب یا عقیدے سے بنتا ہے تو شاید سعودی عرب کے بعددنیا کی سب سے زیادہ متقی قوم ہم ہی ہیں۔ ہم نے آزادی کے بعد سے نو آبادیات کے نشانات کو مٹانے پر جتنی کوششیں صرف کیں ان کی آدھی ہمارے اقتصادی مسائل کو حل کر سکتی تھیں۔

مجھے یاد ہے، قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے ہمارے خاندان نے 1948میں کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ہمارا گھر ’’رام باغ‘‘ کے علاقے میں تھا۔ چند سال بعد ایک روز پتہ چلا کہ ’’رام باغ کا نام بدل کر ’’آرام باغ‘‘ کر دیا گیا ہے۔ یوں شہر میں ناموں کے بدلنے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے۔ بندر روڈ کراچی کی تجارتی شہ رگ ہے۔ اس کا نام بندر روڈ اس لئے رکھا گیا تھا کہ یہ بندر گاہ پر ختم ہوتا ہے۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد جب ان کا مزار اس سڑک کے ایک کونے پر تعمیر ہوا تو اس کا نام ایم اے جناح روڈ رکھ دیا گیا ،اگرچہ اس کا عوامی نام آج بھی بندر روڈ ہی ہے۔ ہمارے یہاں ابراہیم اسماعیل چندریگر کے روپ میں59دن کےلئے ایک شریف النفس وزیر اعظم آئے تھے۔ انہوں نے 12دسمبر 1957کو استعفیٰ دے دیا۔ اس کے کافی عرصے بعد ہمیں احساس ہوا کہ تحریک آزادی کے ایک سرگرم کارکن، قائد اغظم کے قابل اعتماد ساتھی ،سابق مرکزی وزیر دو صوبوں کے سابق گورنر اور سابق وزیر اعظم کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔ چنانچہ اس کی تلافی یوں کی گئی کہ میکلوڈ روڈ کا نام آئی آئی چندریگر روڈ رکھ دیا گیا۔

چند مزید تبدیلیاںملاحظہ ہوں ،شاہراہ لیاقت (فریر روڈ) ،نشتر (لارنس روڈ، چوہدری خلیق الزماں ( گزری) روڈ، ڈاکٹر ضیا ءالدین احمد (کچہری) روڈ، مولوی تمیز الدین خان (کوئنز ) روڈ، خان بہادر نقی محمد (اسٹریچن) روڈ، شاہراہ کمال اتاترک (کورٹ روڈ) ،فاطمہ جناح (بونس)روڈ، جی الانہ ( تہیلا رام کھیم چند)روڈ ،محمد بن قاسم (برنس) روڈ، حارث(سر آغا سوم) روڈ، نواب مہابت خان ( (ایمبینگمنٹ)روڈ، الطاف حسین نیپیر )روڈ، شاہراہ ایران( سردار پرتاب سیٹھ روڈ)بابر (رام چندر ٹیمپل) روڈ، آدمجی دائودپوتہ، (رام پرات) روڈ، سر عبد اللہ ہارون (وکٹوریہ ) روڈ، بابائے اردو (مشن) روڈ،حسرت موہانی (گرانٹ) روڈ،صدیق وہاب (مادھومل)روڈ،جامع کلاتھ (رابنسن) روڈ، ایوان تجارت (نکل)روڈ وغیرہ ۔

جب شاہ فیصل (مرحوم)نے 1974میں دوسری عالمی اسلامی سربراہ کانفرنس کے سلسلے میں پاکستان کا دورہ کیا تو ڈرگ روڈ اور اس سے ملحقہ کالونی کو ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا ۔ چلئے اس کی تو ایک وجہ ہوئی لیکن کئی علاقوں کے نام بلا جواز ہی بدل دیئے۔ گئے مثلاً لالو کھیت ( لیاقت آباد) گولی مار( گلبہار)پٹیل پارک( نشتر پارک ) پولو گرائونڈ (باغ جناح) ،گاندھی گارڈن (چڑیا گھر) رتن پلائو،(اردو بازار)اور گرومندر (سبیل والی مسجد) بعض اوقات نئے نام سیاسی بنیادوں پر رکھے جاتے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی پی پی پی کی حکومت برسر اقتدار آتی ہے، ہر چیز عوامی روپ دھار لیتی ہے،چنانچہ اہل کراچی کو یاد ہو گا محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں پی آئی ڈی ہائوس پر Peoples Houseکا بورڈ لگا دیا گیا تھا، جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو یہ عمارت پھر سے پی آئی ڈی سی ہائوس ہو گئی۔

سڑکیں اپنی جگہ، ہم نے گلیوں کو بھی نہیںبخشا ،مثلاً زیب النساء(الفنسٹن)اسٹریٹ ،علامہ درس (پریڈی) اسٹریٹ،شاہراہ عراق (کلارک اسٹریٹ) تالپور روڈ (وڈ اسٹریٹ) ،جمیلہ (برنس)اسٹریٹ، چاند بی بی (پرنسس)اسٹریٹ ،ڈاکٹر دائود پوتہ روڈ، (فریر اسٹریٹ)میر کرم علی تالپور روڈ( نیپئر اسٹریٹ)اور سیدنا برہان الدین روڈ( مینسفیلڈ اسٹریٹ)وغیرہ اس کے برعکس شہر کے کئی علاقے جن کے نام حس لطیف پر بار گزرتے ہیں۔ آج بھی پرانے ناموں سے پکارے جاتے ہیں مثلاً مچھر کالونی، گیدڑکالونی، کھڈا، بھینس کالونی ،گٹر باغیچہ ،اسکینڈل ،پائنٹ، مولوی مسافر خانہ (جہاں آزادی کے بعد سے ہم نے کوئی مسافر خانہ نہیں دیکھا) اور حاجی کیمپ (جہاں کسی زمانے میں حاجی کیمپ رہا ہو گا) بعض نام مضحکہ خیز ہیں، مثلاً گلشن حدید ،گلشن کے نام سے ذہن میں پھول، خوشبو ،کیاری ، اور ایسی ہی نازک اشیا ءکا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔، اب بھلا حدید (بمعنی لوہا) کا ان سب سے کیا تعلق ؟ اس میں شک نہیں کہ بعض نئے نام مشہور ہو گئے ہیں لیکن بیشتر علاقے/سڑکیں آج بھی پرانے ناموں سے مشہور ہیں۔ اگر آپ کسی رکشہ والے سے کہیں کہ آپ کو گلبہار لے چلے تو ممکن ہے وہ جواب میں بولے ’’صاحب میرا آپ سے مذاق نہیں ہے‘‘

ڈیفنس کے علاقے کی سڑکیں خیابان (پھولوں کی کیاریاں) کہلاتی ہیں، مثلاً خیابان سحر، راحت، جامی ،حافظ، حالی، بخاری، امیر خسرو، غالب وغیرہ لیکن پھر ان لوگوں کی رگ حرب پھڑکی اور خیابان شمشیر، جبل، شجاعت اور شہباز جیسے نام رکھنے شروع کر دیئے۔ کوئی پوچھے کہ شمشیر (تلوار)جبل، (پہاڑ) شجاعت (بہادری) اور شہباز (شکار باز)کا کیاری سے کیا تعلق ؟

سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ایک واقف حال نے بتایا کہ سڑکوں کو نئے نام مشاہیر کی خدمات اور مقبولیت کو پیش نظر رکھ کر دیئے جاتے ہیں۔ ہوتایہ ہے کہ ہمارے شوقین مزاج اور سستی شہرت کے طالب شعرا ء وادباء متعلقہ شعبے کےچکر لگاتے رہتےہیں کہ فلاں سڑک یا پارک ان سے منسوب کر دیاجائے۔( جیسے یہ ان کے سفر آخرت کو آسان بنادےگا) اہل کاروں کو زیادہ مشکل پارک کے ضمن میں پیش آتی ہے جو پالیسی کے تحت عموماً صرف کسی مرحوم ہی سے منسوب کیا جا سکتا ہے لیکن دانشور بھائی اس کےلئے بھی اصرار کرتے ہیں اور کئی ایک تو نام کی خاطر جان دینے کو تیار رہتے ہیں۔

شیکسپیئر نے کہا تھا’’ نام میں کیا رکھا ہے۔ گلاب کو کسی بھی نام سے پکارو اس کی خوشبو ویسی ہی مسحور کن رہے گی ‘‘ میری ناچیز رائے میں نام ہی تو سب کچھ ہے، گلاب تو ہر نام سے خوشبو دے گا لیکن سردیوں میں اس کی قیمت گھٹ کر آدھی رہ جاتی ہے۔