نیشنل اسٹیڈیم: ایک عشرے بعد انٹرنیشنل کرکٹرز کی آمد

September 26, 2019

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے سیریز کا معرکہ شروع ہونے والا ہے۔ جنوری 2009 کے بعد نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں قومی اور بین الاقوامی کرکٹرز رنگ جمانے کیلئے تیار ہیں۔

Your browser doesnt support HTML5 video.

نیشنل اسٹیڈیم: ایک عشرے بعد انٹرنیشنل کرکٹرز کی آمد

شائقین کرکٹ کا جوش وجذبہ بھی عروج پر پہنچ چکاہے اور ان کو ایکشن میں دیکھنے کےلیے بیتابی سے انتظار کررہے ہیں۔ دونوں ٹیموں کے درمیان10 برس بعد پہلا ایک روزہ میچ جمعہ کو نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلا جارہا ہے۔

ون ڈے سیریز کے بعد ٹی ٹوئنٹی سیریز قذافی اسٹیڈیم، لاہور میں کھیلی جائے گی۔ سری لنکن پلیئرز خوف کے سائے کو شکست دیکر پاکستان پہنچے جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔

3مارچ 2009 کا دن پاکستانی قوم کیلئے ایک ڈرائونے خواب سے کم نہ تھا جب دہشت گردوں نے قذافی اسٹیڈیم،لاہور کے قریب سری لنکن ٹیم کی بس پر حملہ کیا جس میں 6 پاکستانی پولیس اہلکار اور دو شہری جاں بحق ہوئے تھے جبکہ سری لنکن ٹیم کے کھلاڑی اور میچ آفیشلز زخمی بھی ہوئے تھے۔

سری لنکن ٹیم پر دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے بندہوئے اور کوئی بھی غیر ملکی ٹیم وطن عزیز میں آکر کھیلنے اور سیکورٹی رسک لینے کیلئے تیار نہ ہوئی۔

اس دوران روایتی حریف بھارت نے ہر ممکن کوشش کی کہ پاکستان کو دنیائے کرکٹ میں تنہا کر دیا جائے۔

کئی بار پاک بھارت سیریزمعاہدہ کرکے بھارت مکر گیا اور نیوٹرل وینیو پر کرکٹ کھیلنے کیلئے بھی تیار نہ ہوا، اور تو اور بھارت کی شہ پر بنگلہ دیش نے بھی سیکورٹی خدشات کا اظہار کرکے دورہ پاکستان سے انکار کیا۔

پاکستان نے ان برسوں میں متحد ہ عرب امارات کو اپنا ہوم گراؤنڈ بنایا۔6برس تک پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی سے محروم رہا۔ میدان ویران اور شائقین سخت مایوسی کا شکار رہے۔ لیکن پاکستانی افواج نے ان تمام دہشت گردوں کا صفایا کرکے ملک کو پر امن بنانے اور انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا آغاز 2013 میں ہوا ۔ افغانستان نے فروری 2013 اور کینیا نے دسمبر 2014 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ لیکن ان میچز کو انٹرنیشنل کرکٹ کا درجہ نہیں دیا گیا۔تاہم جب 2015 میں زمبابوین کرکٹ ٹیم ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنے کیلئے راضی ہوئی تو یہ پاکستانی شائقین کیلئے ایک بہت بڑی خبر تھی کیونکہ 6 برس بعد کوئی انٹرنیشنل ٹیم، پاکستان کا دورہ کرنے پر راضی ہوئی۔

گوکہ میزبان ٹیم نے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز اپنے نام کی، لیکن ملک کےلیے یہ بہت اہم تھا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے پہلا مثبت قدم اٹھایا گیا۔اس موقع پر لگ رہا تھا کہ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے سے ویران ہونے والے میدان بہت جلد آباد ہوجائیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ البتہ کاوشیں جاری رکھی گئیں۔

2016 میں مکمل طور پر کرکٹ کی بحالی کیلئے کوششیں جاری رکھی گئیں، اور بالاخر سال 2017 میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ جس میں غیر ملکی پلیئرز کو پاکستانی سرزمین پر کھیلنے کیلئے قائل کرنا کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ پی سی بی نے ان کی سیکورٹی خدشات کو دور کرنے کیلئے تمام اقدامات کئے۔

پاکستان سپر لیگ کے فائنل کا لاہور میں کامیابی سے انعقاد کیا گیا جس میں سابق ویسٹ انڈین کپتان ڈیرن سیمی ، ڈیوڈ میلان ، مارلن سیموئلز، کرس جارڈن، مورنے وان ، سین روین اور ریادا ایمرٹس ایکشن میں نظر آئے۔ یہ وہ تاریخی اور یادگار لمحات تھے جب لاہور کا قذافی اسٹیڈیم کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔

شائقین کرکٹ اتنے برسوں بعد غیر ملکی پلیئرز کو اسٹیڈیم میں دیکھ کر خوشی سے نہال نظر آئے۔ خاص طور پر ڈیرن سیمی نےنہ صرف فائنل میں عمدہ پرفارمنس کامظاہرہ کرتے ہوئے میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے بلکہ اپنے روایتی انداز سے مداحوں اورشائقین کوخوب انجوائے کروایا۔

قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پی ایس ایل کے انعقاد کے بعد ورلڈ الیون کی پاکستان آمد ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔اس ضمن میں پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی میں آئی سی سی کا کردار نہایت اہم ہے۔ آئی سی سی نے ورلڈ الیون کو پاکستانی سرزمین پر کھیلنے کیلئے راضی کیا اور اس سیریز کو انٹرنیشنل اسٹیٹس دیا۔

پاکستان اور ورلڈ الیون کے درمیان تین ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز کھیلی گئی۔جنوبی افریقی پلیئر فاف ڈپلیسی نے کپتانی کے فرائض انجام دیئے۔عمران طاہر، ہاشم آملہ، جارج بیلی، پال کولنگ ووڈ، گرانٹ ایلیٹ، ڈیوڈ ملر، بین کٹنگ، مورنی مورکل، تھیسارا پریرا، سیموئل بدری، ڈیرن سیمی، تمیم اقبال اور ٹیم پین نے شرکت کی۔ پاکستانی شائقین نے کھلے دل سے ورلڈ الیون کا پرتپاک استقبال کیا۔

سری لنکن بورڈنےاپنی ٹیموں پر حملے کے باوجود 2017 میں اپنی ٹیم کو بھیجا۔ سری لنکن ٹیم پاکستان میں ٹی20 میچ کھیلنے پر راضی ہوئی، اس طرح 8برس بعد سری لنکن ٹیم کی لاہور میں واپسی ہوئی۔ اکتوبر 2017 میں لاہور میں ٹی20 انٹرنیشنل میچ کھیلاجبکہ سیریز کے بقیہ میچز متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے۔یہ دورہ کامیاب رہا ۔ اس کامیاب دورے کے بعد پاکستان نے اپنی کوششیں تیز کیں اور دیگر ٹیموں کو پاکستان میں آکر کھیلنے کی دعوت دی۔

2018 میں کراچی میں سپر لیگ فائنل کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے قبل 2017 میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں کھیلا گیاتھا، جس میں غیر ملکی پلیئرز نے شرکت بھی کی تھی۔لیکن ابتدا میں کراچی میں ہونے والے میچ میں کھیلنے کیلئے غیرملکی کھلاڑیوں نے عدم تحفظ کا اظہار بھی کیا تاہم پی سی بی نےمکمل طور پر سیکورٹی انتظامات کی یقین دہانی کروائی۔

کرکٹ بورڈ نےپاکستان میں 2018سیزن کے تین میچز کا انعقاد کامیابی سے کرائے جس میں غیر ملکی کھلاڑی آندرے فلیچر، لیام ڈاؤسن، لیوک رونچی، چیڈوِک والٹن، جے پی ڈومنی اورسمت پاٹل نے لیگ ٹیموں کی نمائندگی کی۔ اس کے بعد کراچی میں انٹرنیشنل کرکٹ کے بند دروازے کھل گئے اور شائقین کرکٹ کا انتظار ختم ہوا اور پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کیلئے کی جانے والی کاوشیں رنگ لانے لگیں۔

ٹی ٹوئنٹی چیمپئن کے بعد ویسٹ انڈیز کی ٹیم کراچی میں مسلسل تین دن ، تین ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کیلئے تیار ہوئی اور 2009 کے بعدکراچی نےپہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی کرکے تاریخ رقم کی ۔ ویسٹ انڈین ٹیم کی پاکستان آمد سے دنیا کو امن و محبت کا پیغام ملا۔

فروری 2019 میں کرکٹ بورڈ نے شائقین کو ایک بہت بڑی خوشخبری سنائی کہ پاکستان سپر لیگ، فورتھ سیزن کے 8 میچز کراچی اور لاہور میں ہونگے۔ جبکہ ابتدائی میچز متحدہ عرب امارت کے میدان میں ہونگے۔

بعدازاں لاہور کے تمام میچز کراچی منتقل کردیئے گئے۔ لیگ میں شامل 6ٹیموں نے بہترین پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ جہاں ایک طرف ستاروں سے سجے میلے میں کرکٹرز نے اپنا رنگ خوب جمایا وہیں ایونٹ کو کامیاب بنانے کے ساتھ ساتھ دنیا کو پیغام دیا گیا کہ پاکستان کھیلوں کے لیے محفوظ ملک ہے۔

اب کل سے شروع ہونے والے پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے سیریز میں ہار اور جیت کسی بھی ٹیم کی ہو، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سری لنکن ٹیم خوف کے سائے کو شکست دے کر پاکستان پہنچی ہے۔ان کا حوصلہ اور ان کی محبت لائق تحسین ہے۔ جب بھی پاکستان کرکٹ پر برا وقت آیا سری لنکن بورڈ نے پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دیا اور پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی میں سری لنکن بورڈ کا بھی کردار اہم ہے۔

پاکستان نے 2009 کے بعد سے اب تک کسی ٹیسٹ میچ کی میزبانی نہیں کی ہے، لیکن کوششیں جاری ہیں، توقع ہے کہ بہت جلد پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کی بھی میزبانی کرے گا ۔