طبلِ جنگ بچ چکا، قیامت بپا ہونے کو نہیں

October 27, 2019

آج 27اکتوبر کو ’’آزادی مارچ‘‘ کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور محروم کشمیریوںکی آزادی کے نعرے کے ساتھ۔ عجیب اتفاق ہے! مظلوم کشمیریوں پہ جاری قیامت کو 85روز ہو چلے ہیں اور جانے اُنہیں ابھی آزادی کی صبح دیکھنے کو کتنا طویل انتظار کرنا پڑے؟ (البتہ مولانا فضل الرحمٰن کو زیادہ لمبا انتظار نہیںکرنا پڑے گا)لیکن آزادی کے نعرے ہر سُو گونج رہے ہیں۔

جب لوگ غلام اور مجبور و مقہور رہنے سے انکار کر دیںتو اُنہیںکوئی زنجیر قید میںنہیں رکھ سکتی۔ حقِخودارادیت کے استعمال سے جو دو ریاستیںوجود میں آئیںوہاںابھی بھی لوگ ویسے آزاد نہیں جیسا کہ خواب دیکھا گیا تھا۔ آزاد، جمہوری اور سیکولر بھارت کو ملا بھی تو مودی اور اس کی ہندو راشٹرا۔

پاکستان کو ملے تو فوجی آمر جن کے ہاتھوںزچ ہو کر اور خون میںنہا کر مشرقی پاکستان کے بنگالیوںنے حقِعلیحدگی استعمال کرتے ہوئے نئے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی جو بھارت کی نوآبادی بننے کے بجائے شرح معاشی نمو اور ترقی میںبھارت سمیت دُنیا بھر میںآگے ہے۔

لیکن مسلم بنگالیوںکے حقِخود مختاری کے حقیقت کا روپ دھارنے کے باوجود بھارت نے کوئی سبق سیکھا، نہ پاکستان نے۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف دوسرے کے غلبے کے شکار لوگوں پہ نظرِ عنایت تو کرتے رہے، اپنے اپنے لوگوں کی آواز سننے سے بے بہرہ رہے۔ لوگوںکی جمہوری، انسانی اور معاشی اُمنگوںکو کچلا جائے گا تو بھارت کی جمہوریہ جاری رہے گی نہ پاکستان کی لولی لنگڑی سول انتظامیہ کو اپنے پائوںپہ کھڑے ہونے کی جگہ میسر آئے گی۔

پاکستان بننے کے بعد سے ہر جمہوری حق کے لیے لوگوں کو لڑائی لڑنا پڑی کہ انگریز سے ورثے میں ملا وائسرائی جدید نو آبادیاتی ڈھانچہ اپنی آمرانہ بالادستی پہ مصر رہا۔ ملک تڑوانا منظور کر لیا، لیکن مقتدرہ کے کروفر میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیںہوئی۔

فیلڈ مارشل ایوب خان گئے بھی تو 1968کی عظیم عوامی بغاوت کے نتیجے میں۔ جنرل یحییٰخان رخصت ہوئے بھی تو شکست کھا کر جس کے نتیجے میں 1973کے متفقہ آئین کی بدولت پاکستان جمہوریہ بنا اور پہلے بااختیار وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت بن پائی جس کی پاداش میںپھر مذہبی کارڈ استعمال ہوا اور پھر سے مارشل لا مسلط کر دیا گیا اور بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریکِبحالیِجمہوریت (MRD) کامیاب ہوئی بھی تو فضائی حادثہ کے طفیل۔ اور جنرل مشرف سدھارے تو چارٹر آف ڈیمو کریسی کی جیسی کیسی جمہوری ایکتا کی بدولت۔

ساٹھ برس کے طویل انتظار کے بعد ایک دہائی کے لیے سویلین حکمرانی کا تسلسل تو رہا لیکن خنجر کی نوک پر۔ عدلیہ آزاد کروائی گئی، لیکن پلٹ پڑی منتخب حکمرانوں کے خلاف۔ یہی حال میڈیا کا ہوا جو آزاد ہو کر پہلے جمہوری حکمرانی کو مسمار کرنے پہ لگا رہا اور آخر میںاپنی آزادی کی عصمت گنوا بیٹھا۔ ایک عشرے کے جمہوری تسلسل کے دوران دو حکومتوںنے بس اپنی اپنی مدتیںپوری کرنے کے لیے ہر طرح کے سمجھوتے کیے بھی تو کام نہ آئے۔

جمہوریت کا دوسرا نام کرپشن (Kleptocracy) ٹھہرا اور پھر سے احتساب احتساب کے نعرے گونجنے لگے۔ اب اُس دور کی دونوں حکومتوںکے تمام بڑے کردار یا تو جیلوںمیںہیں یا مقدمات بھگت رہے ہیں۔

تین بار منتخبہ وزیراعظم میاںنواز شریف انتہائی ناروا سلوک کے ہاتھوںزندگی اور موت کی کشمکش میںمبتلا ہیں اور حکومت کو فکر لاحق بھی ہوئی ہے تو اس لیے کہ کہیں وہ اُن کی قید میں نہ چل بسیں۔ صدر آصف زرداری کی حالت بھی غیر لگتی ہے۔ لیکن اُن کا کوئی پُرسانِحال نہیں۔ ایسے میں آج مولانا فضل الرحمٰن اپنے آزادی مارچ پہ روانہ ہو چکے ہیں اور اُن کے ساتھ اب اے پی سی کی تمام جماعتیںشامل ہو چکی ہیں۔ ابھی معاملہ جلوس اور اسلام آباد میں31اکتوبر کو جلسے تک محدود لگتا ہے۔

گزشتہ جمعہ کو حکومتی ٹیم اور اے پی سی کی رہبر کمیٹی میںدو ملاقاتوں میںآزادی مارچ کے مقام پر تعطل ختم نہ ہو سکا۔ مولانا فضل الرحمٰن اور رہبر کمیٹی نے پہلے ہی وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰکی شرط منوائے بغیر اس شرط پہ مذاکرات شروع کر دیئے کہ اسلام آباد میںجلسے کی اجازت دی جائے۔ مذاکرات کا اندرونی ماحول مضحکہ خیز تھا۔

حکومتی ٹیم کے ہاتھوںمیںسپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوںکی نقول تھیںجن میں دھرنے کے خلاف حقِ اجتماع کی حدود و قیود بیان کی گئی تھیں۔ 126روزہ دھرنا کرنے والوںکے ہاتھوں میںیہ فیصلے مگر پشیمانی کا باعث نہ بنے۔ حکومتی ٹیم کا اصرار تھا کہ اپوزیشن پریڈ گرائونڈمیں جلسہ سجا لے، جبکہ اے پی سی والے ڈی چوک کے قریب (ریڈ زون سے باہر) جلسہ کرنے پہ مصر رہے۔ اس پر حکومتی وفد نے چائنا چوک پہ جلسہ کرنے کی تجویر دی جسے رہبر کمیٹی نے مسترد کر دیا۔

حکومت ایک طرف اے پی سی کو گفتگو میںمشغول کرکے ماحول ٹھنڈا کرنے کا جتن کر رہی ہے تو دوسری طرف پورے ملک کی شاہراہیں بند کی جا رہی ہیں۔ خندقیں کھودی جا رہی ہیں اور کارکنوں کو گرفتار اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اُدھر مولانا عازمِ جہاد ہیں اور اب ساری اپوزیشن پارٹیاںاُن کی ہم رکاب ہو چکی ہیں۔ اب اگر حکومت جلوسوںکو روکتی ہے تو چاروں صوبوںمیںہنگامہ آرائی زیادہ شدید ہوگی اور اگر لیت و لعل کے باوجود آزادی مارچ کو اسلام آباد جانے دیا گیا تو قیامت آنے والی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ایک بہت بڑا اجتماع ہوگا اور بات بڑھی بھی تو چند روز کے دھرنے کے بعد لوگ گھروں کو سدھار جائیں گے۔ ابھی یہ کالم لکھ رہا تھا کہ خوفناک بریکنگ نیوز سامنے آ رہی ہیں۔

میاں نواز شریف کی حالت بہت ہی بگڑ گئی ہے۔ انہیں دل کا دورہ بھی پڑا ہے اور اُن کے پلیٹلٹس پھر سے بہت نیچے گر گئے ہیں۔ اُن کی زندگی سخت خطرے میں ہے۔ غالباً انہی رپورٹس کی بنیاد پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہفتہ کو ہی اُن کی ضمانت کی درخواست کی سماعت شروع کر دی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کی طرح، اسلام آباد ہائیکورٹ بھی اُن کی ضمانت پہ رہائی کا آرڈر جاری کرنے جا رہی ہے۔ لیکن بہت دیر ہو چکی۔ خدانخواستہ میاں نواز شریف قید و بند کی صعوبتوں، حکومتی و نیب کی چیرہ دستیوں اور نظامِانصاف کی زیادتیوں کے ہاتھوںرحلت کر گئے تو یہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اور محترمہ بینظر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک خوفناک صورتِ حال کو جنم دے گا، لیکن اس بار سندھ یا بلوچستان یا پختونخوا میںنہیں پاکستان کی راج دھانی کے مرکز پنجاب میں جانے کیا سے کیا ہو جائے۔

ایسے حادثے کی صورت میں پھر 31اکتوبر سے پہلے ہی جانے کیا طوفان کھڑا ہو جائے جسے سنبھالنا شاید کسی کے بس میں نہ رہے۔