صدر اردوان اور انتونیو گوتیرس کی آمد: خارجہ محاذ پر پاکستان کی کامیابیاں

February 20, 2020

ترک صدر رجب طیب اردوان کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے دورہ پاکستان نے وفاقی دارالحکومت میں ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے سے جہاں یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان خارجی سطح پر تنہا نہیں بلکہ پاکستان کوتنہا کرنے کی خواہش رکھنے اور دعویداروں کو دہلی میں خود ان کے مخالف عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند گجریوال نے تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھا کر جو جواب دیا ہے وہی کافی ہے اوریہ جواب ہی نہیں بلکہ خوب تگڑا جواب تھا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے پاکستانی کی پارلیمانی تاریخ میں یہ ریکارڈ قائم کیا کہ وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے چار مرتبہ پارلیمنٹ سے خطاب کیا دو مرتبہ وزیراعظم اور دو مرتبہ اپنے ملک کے صدر کی حیثیت سے، اور ان کا یہ دورہ رسمی نہیں بلکہ ایک سچے مسلمان اور پکے دوست کی غمازی کرتا تھا۔

پھر دونوں ملکوں کے درمیان جن معاہدوں پر اعلانیہ دستخط ہوئے وہ بھی اور جن امور پر ’’غیر اعلانیہ اتفاق رائے‘‘ ہواوہ بھی انتہائی دوررس نتائج کے حامل ہوں گے اسی طرح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس جو اپنے موجودہ منصب کے دوران پہلی مرتبہ پاکستان کے دورے پر آئے تھے ان کے اس دورے کو بھی ان کی مصروفیات کی نوعیت کے پیش نظر کسی طور پر بھی رسمی دورہ نہیں کہا جا سکتا۔انہوں نے پاکستان میں انتہائی مصروف دن گزارے اور اسلام آباد میں ہونے والی مختلف تقاریب، گفتگو اور مختلف سطح کے اعلیٰ رابطوں کی بات کی جائے تو ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہیں پاکستان کے حالات اور واقعات کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک کے ساتھ تنازعات کا بھی پوری طرح ادراک تھا۔

ان کا کرتارپور راہداری کا دورہ بھی ایک ’’علامتی حیثیت‘‘ رکھتا ہے جہاں سے سرحد پار کئی پیغام بھی گئے۔ ترک صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل دونوں نے اہم امور پر پاکستان کے موقف سے ہم آہنگی کا اظہار کیا بالخصوص کشمیر کے معاملے پر دونوں شخصیات کی رائے اور موقف انتہائی اہم اور غیر مبہم تھا۔ اس طرح حکومت اور وزارت خارجہ کی ان کوششوں کو ہراعتبار سے کامیاب بامقصد اور سفارتی سطح پر کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ان دونوں شخصیات کے دورے ایک ایسے وقت پر ہوئے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر جانے والے ہیں۔اب اس حوالے سے ذرا داخلی سطح پر ہونے والی سیاسی کشمکش کا اندازہ بھی لگائیں ایک اطلاع کے مطابق ترکی کے صدر کی آمد کے موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا کیونکہ بالخصوص سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے صدر رجب طیب اردوان کے ذاتی مراسم بھی تھے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔

صدر رجب طیب اردوان نے اپنی صاحبزادی کی شادی کی تقریب میں نہ صرف انہیں بطور ذاتی مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا تھا بلکہ میاں نواز شریف نے ان کی صاحبزادی کے نکاح میں گواہ کے طور پر دستخط بھی کئے تھے اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت بھی ان کی قیادت سے رجب طیب اردوان کے شاندار تعلقات تھے لیکن اس حوالے سے خواہش اور درخواست کے باوجود خاموشی اختیار کی گئی پھر جب کوئی غیر ملکی سربراہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتا ہے تو اختتام پر انہیں ایوان میں لایا جاتا ہے اور اپوزیشن کے راہنمائوں سے بھی ان کی ملاقات کرائی جاتی ہے یہ پارلیمانی روایات کا ایک حصہ ہے لیکن اس مرتبہ یہ ’’روایت شکنی‘‘ بھی کی گئی اور ترک صدر کو صرف اس لئے ایوان میں نہ لایا گیا تاکہ اپوزیشن ان سے ہاتھ بھی نہ ملا سکے۔

سیاسی اختلافات کے باوجود اعلیٰ روایات کی پاسداری اور وضعداری کا خیال رکھنے سے ہی انسان کے بڑے ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے جو ایک مرتبہ پھر ملک گیر احتجاج کی منصوبہ بند ی کررہے ہیں اور انہوں نے واضح لفظوں میں اسلام آباد کو یہ پیغام دیا ہے کہ میں موجودہ حکومت کو جو ایک ناجائز حکومت ہے ختم کر کے ہی دم لوں گا اگر کسی میں جرات ہے تو مجھ پر غداری کا مقدمہ درج کرلیں۔ جے یو آئی کے دیگر رہنما بھی اپنے قائد کے اسی دعوے کو دہراتے رہے ہیں کہ اگر حکومت میں دم ہے تو وہ مولانا پر بغاوت کا مقدمہ قائم کریں اور پھر تماشا دیکھیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ کو وزیراعظم عمران خان نے اخبارات کے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے یہ عندیہ دیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان پر آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جانا چاہئے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے یہ بات کسی رپورٹر کے سوال کے جواب میں نہیں بلکہ از خود کہی تھی جو بنیادی طور پر ان کے وزیر فواد چوہدری کا آئیڈیا تھا۔ اور یہ وہی دن تھا جب ترک صدر رجب طیب اردوان اسلام آباد میں موجود تھے اور انہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے انتہائی پر جوش اورتاریخی خطاب کیا تھا کہ لیکن آفرین ہے وزیراعظم کے مشیروں کو کہ رپوٹرز سے وزیراعظم سے ملاقات کا یہ دن منتخب کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام الیکٹرانک میڈیا پر وزیراعظم کا مولانا صاحب کے بارے میں بیان چھپایا رہا اور ترک وزیراعظم کی تقریر قدرے پس منظر میں چلی گئی اور ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے مولانا فضل الرحمان ٹی وی ٹاک شوز میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اس طرح اسلام آباد میں دھرنے کے بعد ایک بار پھر حکومت نے انہیں منظر عام پر آنے کا شاندار موقع فراہم کیا ہے اب ان پر بغاوت کا مقدمہ تو قائم ہوگا یا نہیں لیکن وزیراعظم کے اس جانب عندئیے دیئے جانے سے ہی جو رد عمل دیکھنے میں آرہا ہے اس سے بہت سے اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔

دوسری طرف حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اس حوالے سے خاصے متجسس ہیں کہ مولانا فضل الرحمان جو اسلام آباد میں اس عزم کے ساتھ دھرنا لیکر آئے تھے کہ وہ حکومت گرا کر واپس جائیں گے وہ کس کی یقین دہانی پر واپس گئے اور وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس ضمن میں ان سے وعدے بھی کئے تھے اس حوالے سے چوہدری شجاعت کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو ان کے دھرنے کے دوران بعض یقین دہانیاں چوہدری پرویز الٰہی نے کرائی تھیں اور یہ یقین دہانیاں انہوں نے حکومت کی طرف سے کرائی تھیں کیونکہ میں اور پرویز الٰہی حکومت کی جانب سے ہی ان سے بات چیت کررہے تھے ۔