امریکہ طالبان معاہدہ ہونے والا ہے؟

February 27, 2020

مشرقی سرحد سے تو کسی اچھی خبر کی امید ہی نہیں ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ بھارت میں کیا بازی گری دکھا کر جاتے ہیں لیکن مغربی سرحد پر بہار کے امکاں پیدا ہورہے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کے نتیجے میں سات روزہ فائر بندی شروع ہو چکی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ طالبان 22سے 28فروری کے درمیان مارا ماری کم کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ اس سات روزہ آزمائش کے جائزے کے بعد امریکہ اور طالبان 29فروری کو ایک معاہدے پر دستخط کردیں گے۔ ٹائم میگزین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہر قدم احتیاط درکار ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ طالبان کا کوئی دھڑا کوئی پُرتشدد جھڑپ کرکے معاملات بگاڑ سکتا ہے یا صدر ٹرمپ کا کوئی دیوانگی سے بھرپور ٹویٹ بھونچال لا سکتا ہے۔

ہمارے پڑوس میں اگر حملہ آور غیرملکی اور موجودہ افغان حکومت پر حملہ آور طالبان اگر کسی دانشمندانہ معاہدے پر رضا مند ہو جاتے ہیں تو یہ اس خطّے کے لئے بڑی خوشخبری ہوگی لیکن تاریخ اور جغرافیہ ایسی کسی بشارت پر یقین نہیں کرنے دیتے۔ بہت سے سوالات ہیں کہ کیا دس ہزار میل دور سے آکر افغانستان پر آگ اور لوہے کی بارش برسانے والا امریکہ ان ہی طالبان سے کوئی سمجھوتہ کر سکتا ہے جنہوں نے امریکہ میں نائن الیون برپا کرنے والوں کو پناہ دی تھی۔ 18سال پہلے اپنی پوری عسکری طاقت جدید ترین ہتھیاروں، بمباروں سے موت برسانے والا امریکہ اپنے یورپی ایشیائی اتحادیوں سے اشتراک، 900ارب ڈالر خرچ کرنے، 3500فوجی ہلاک کروانے، ایک لاکھ سے زیادہ افغان مظلوم شہید کرنے، 45000افغان سیکورٹی اہلکار ہلاک کروانے کے باوجود اپنی مرضی کے حکمراں مسلط کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اور انہی طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہوا ہے جن کو یکسر ختم کرنے کے عزم سے وہ حملہ آور ہوا تھا۔ کیا امریکہ اپنے مشن میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ اب وہ صرف راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے۔ کیا طالبان اپنی انتہا پسندانہ پالیسیاں ترک کر سکتے ہیں۔ کیا ان کے مزاج میں کوئی تبدیلی آگئی ہے۔

کیا واقعی یہ تاریخی معاہدہ ہونے والا ہے۔ اس کے لئے نیویارک ٹائمز میں طالبان کے ڈپٹی لیڈر اور فوجی کمانڈر سراج الدین حقانی کی تحریر کا مطالعہ ازحد ضروری ہے لیکن اس سے پہلے میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کے واحد ترجمان ماہنامہ ’شریعت‘ کے تازہ شُمارے سے فرمان امیر المومنین شیخ الحدیث ہیبۃ اللہ اخونزادہ حفظہ اللہ نقل کرنا چاہوں گا۔ ان کا کہنا ہے ’’امارتِ اسلامیہ اپنے موقف کے مطابق افغانستان کو ایک ایسا پُرامن خطہ بنائے گی جو کسی بھی طرح سے بیرونی دخل اندازی سے پاک ہوگا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ کوئی افغانستان کی خود مختاری کو نقصان نہ پہنچائے، یہ امارتِ اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ افغانستان سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے‘‘۔ یہ فرمان بھی طالبان کی واضح پالیسی کا آئینہ دار ہے۔ اسی شُمارے کے اداریے کی آخری سطور بھی لائقِ ملاحظہ ہیں۔ ’’ملک و ملت کی آزادی، اپنے دین کا دفاع، عدل و انصاف پر قائم اسلامی نظام کا قیام و نفاذ، بیرونی قبضے سے ملک کو چھڑانا ہمارے وہ اعلیٰ مقاصد ہیں جن سے ہم کبھی بھی سر مو انحراف نہیں کر سکتے۔ اب یہ اہداف اگر مذاکرات کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں تو یہ ہمارے لئے بڑی کامیابی ہوگی اور اگر امریکہ مذاکرات سے پیچھے ہٹتا ہے تو ہم اس مقدس جہاد کو جاری رکھیں گے۔ یہ بات امریکہ بھی خوب جانتا ہے۔ اب یہ امریکیوں کی مرضی ہے کہ وہ عزت سے نکلنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر ذلت و رسوائی اور جانی و مالی نقصانات سے بھرپور راستے کا انتخاب کرنا ہے کیونکہ نکلنا تو بہرحال ہے‘‘۔

سراج الدین حقانی کی تحریر کا عنوان ہے ’’ہم طالبان کیا چاہتے ہیں‘‘۔ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے جنگ کا راستہ نہیں چُنا، ہمیں دفاع پر مجبور کیا گیا۔ غیرملکی فوجوں کا انخلا ہمارا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے۔ گزشتہ 18ماہ سے مذاکرات ملّا عبدالغنی برادر اور شیر محمد عباس کی سرکردگی میں ہورہے ہیں۔ اگرچہ آسمانوں سے موت برستی رہی پھر بھی ہم سمجھوتے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ غیرملکی فوجیں نکلنے کے بعد جو بھی حکومت آتی ہے اس کا انحصار افغانوں کے درمیان اتفاقِ رائے پر ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ جب غیرملکی تسلط ختم ہو جائے گا تو ہم افغان ایسا اسلامی نظام لے کر آئیں گے جس میں سارے افغانوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ ہم کسی مفاد پرست گروپ کو افغانستان میدانِ جنگ نہیں بنانے دیں گے۔ سب سے بڑا چیلنج ہوگا مختلف افغان گروپوں کو اپنے مشترکہ مستقبل کی طرف لے جانے کے لئے قائل کرنا۔ اگر ہم غیرملکی دشمن سے معاہدہ کر سکتے ہیں تو افغان دھڑوں کے درمیان اختلافات بھی ختم کر سکتے ہیں۔ دوسرا چیلنج ہوگا بین الاقوامی برادری کی افغان امور میں دلچسپی برقرار رکھنا۔ نیا افغانستان بین الاقوامی برادری کا ایک ذمہ دار رکن ہو گا‘‘۔

اگلا جملہ قابلِ غور ہے کہ ہم تمام بین الاقوامی قوانین کی پابندی کریں گے۔ جب تک وہ اسلامی اصولوں سے متصادم نہ ہوں۔ معاہدہ ہونے پر جشن منانے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ اس پوری تحریر میں پاکستان کا کہیں نام نہیں لیا گیا، نہ محبت میں اور نہ ہی نفرت میں۔ پاکستان کو اپنے رویے اور پالیسی سے اس صورتحال میں اپنی اہمیت منوانا ہوگی کیونکہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں یا ناکام، پاکستانیوں پر مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ 29فروری کو اگر اس معاہدے پر دستخط ہو جاتے ہیں تو جنوبی اور وسطی ایشیا میں ایک نیا دَور شروع ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان 10مارچ کو مذاکرات کے آغاز کا پروگرام ہے اور یہ بہت ہی دُشوار اور خطرات سے بھرپور ہوگا۔ افغان حکومت اور طالبان دونوں ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ پاکستان اپنے داخلی جھگڑوں میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ اس مذاکراتی عمل میں فی الحال اس کا کوئی کردار نظر نہیں آتا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ مختلف افغان دھڑے ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ افغان بہن بھائیوں کو غیرملکی تسلط سے آزاد ہوکر چین سے زندگی بسر کرنے کا موقع ملے۔