کورونا کے خوف میں محبتوں کا ہجوم

March 22, 2020

بہاولنگر کی تاریخنے ایسی دلدوز محبتوںکا ہجوم شاید ہی کبھی دیکھا ہو اور وہ بھی کورونا وائرس کے پھیلتے خوف کے گمبھیر سایوںمیں۔ وہ جو کبھی سماجی جمہوری جنگ میںکسی مورچے پہ نہ ہارا تھا، کینسر کے موذی مرضسے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گیا۔ لیکن اس بار کامرانی کے جلوس کے بجائے، سوگواروںکا ہجوم اپنے بےلوث، ہردلعزیز عوامی رہنما سیّد ممتاز عالم گیلانی کے جسدِخاکی کے آخری سفر میںاُسے وداع کرنے کے لیے جمع تھا۔ کورونا وائرس کے باعث اُس کی موت کا اعلان کیا گیا تھا، نہ کوئی روایتی نامہ و پیام۔ بس اس خبر کا سینہ بہ سینہ پھیلنا تھا کہ ’’گیلانی صاحب نہیں رہے‘‘، جانے کہاںکہاں سے اور کون کون سے لوگ آخری دیدار اور مغفرت کی دُعا کے لیے جمع ہو گئے۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور بارِیگانگت سے جھکی ہوئی۔ میری اُن سے، اپنے بڑے بھائی اور کامریڈ سے ستر برس کی رفاقت انجام کو پہنچ رہی تھی اور سات دہائیوںکی جمہوری اور عوامی حقوق کی جدوجہد، قید و بند کے طویل سلسلے، رفاقت اور کربناک امتحانوںکے تمام مناظر میری آنکھوںکے سامنے گھوم رہے تھے۔ بس قلبی سکون اگر تھا بھی تو یہ کہ لوگوں کے تشکر کے جذبات سے بڑا نذرانۂعقیدت کسی بھی عوامی رہنما کے لیے کیا ہو سکتا ہے۔ یہ تھے ممتاز عالم میرے بڑے بھائی جو ایک شفیق دادی اور اکیلی ماںاور خالہ کی کوششوںسے تعلیم حاصل کر پائے۔ راولپنڈی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ ایس ایم لا کالج میںقانون کی تعلیم حاصل کرنے پہنچا تو کراچی میںموجود نوجوان انقلابیوںمعراج محمد خان، فتحیاب علی خان اور شہنشاہ حسین وغیرہ کے ساتھ مل کر ایوب آمریت کے خلاف متحرک ہوگیا۔ وہ ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ایس ایم لا کالج کی یونین کا عہدیدار منتخب ہوا۔ 1964کے بالواسطہ انتخابات کا اعلان ہوا تو وہ بھی ملیر کینٹ کے فوجی علاقے سے بی ڈی ممبر منتخب ہوا۔ متحدہ اپوزیشن کی صدارتی اُمیدوار مادرِملت محترمہ فاطمہ جناحکی انتخابی مہم میںکوویرا اور محترمہ جناح نے اُسے اپنا چیف الیکشن ایجنٹ مقرر کر دیا۔ لیکن انہیںاور اُن کے دوست مناظر کو اغوا کر لیا گیا اور ایوب خان نے ایک بڑی انتخابی دھاندلی سے قائداعظم کی ہمشیرہ کو انتخابی معرکہ جیتنے نہ دیا۔ دریں اثنا 1965کی جنگ چھیڑی گئی اور ایوب خان کے ’’عشرہ ترقی‘‘ کا زوال شروع ہوا۔ اس کی نیولبرل اور ریاستی سرپرستی میںسماجی و علاقائی تفریق نے ایک طرف طبقاتی تفریق بڑھاتے ہوئے بائیس خاندانوںکی اجارہ داری تو قائم کی لیکن ’’ترقی‘‘ کے یہ ٹپکے محنت کشوں کے خشک ہونٹوںکو تر نہ کر سکے۔ اور وہ جگہ جگہ ہڑتالوں اور مظاہروں پہ مجبور ہو گئے۔ دوسری جانب مشرقی پاکستان و دیگر چھوٹے صوبوںکے استحصال سے علاقائی نابرابری کو مضبوط مرکز اور ملکی سلامتی کے نام پر اتنا بڑھایا گیا کہ 1940کی قرارداد میںکیے گئے علاقائی خودمختاری کے وعدے دفن ہو کر رہ گئے اور بنگالی، بلوچ، سندھی اور پختون قوم پرستی کے لاوے پھوٹ پڑے۔ ممتاز عالم جو کہ وکلا کے رہنما تھے، کالا کوٹ پہن کر باہر نکلے اور میں لاہور میں طالبعلموں کی ایکشن کمیٹی اور این ایس او کی رہنمائی کرتے ہوئے عظیم عوامی اُبھار میںشامل ہو گیا۔ بہاولنگر میں ’’جشن عشرہ ترقی‘‘ منایا جا رہا تھا اور ہم طالبعلم ایک جلوس لے کر جشن کی جگہ پہنچے ہی تھے کہ سارا میلہ اُلٹ گیا، کرفیو لگا اور ہمیں گرفتار کر لیا گیا۔

ایک برس پہلے 1967میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی جس میںممتاز عالم بھی شامل تھے۔ 69ء کے عوامی اُبھار کی لہروںکے دوش پر ذوالفقار علی بھٹو ایک مقبول رہنما کے طور پر اُبھرے اور مغربی پاکستان میںچھا گئے۔ اب ایوب آمریت تو ختم ہوئی لیکن ایک اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰخان اقتدار پر براجمان ہو گیا۔معراج محمد خاں جیسے قدآور سوشلسٹ اور شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن اور ممتاز عالم جیسے سوشل ڈیمو کریٹس سے لیکر سندھ، پنجاب اور پختونخوا کے بڑے جاگیردار اور دیہی اور شہری محنت کشوںکا ایک جمِغفیر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا۔ جب انتخابات کا انعقاد ہوا تو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کھمبے کو بھی ووٹ پڑ گیا تو بائیںبازو کے اُن دوستوںجو ’’انتخاب نہیںانقلاب‘‘ پر مصر تھے اور جنہوںنے معراج محمد خاںاور ممتاز عالم سمیت درجنوںپارٹی ٹکٹ واپس کرتے ہوئے دوسروںکے لیے انتخابی مہم چلائی، انتخابات کے نتائج پر ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اور جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو یہ لوگ رفتہ رفتہ سائیڈ لائن ہو گئے اور جاگیر داروںنے پیپلز پارٹی پہ اپنی گرفت مضبوط کر لی اور شیخرشید جیسے کسان لیڈر پارٹی میں غیر موثر ہو گئے۔ ممتاز عالم بھی شیخرشید کے اُن ساتھیوں میں سے تھے جو اُمید کا دامن تھامے رہے۔ بھٹو صاحب کے دور میںجہاںکچی پکی اصلاحات ہوئیں وہاںٹریڈ یونینز، کسانوںاور بائیںبازو والوں پہ بھی ایک آفت ٹوٹی۔ میں اُس وقت مزدور کسان پارٹی میںتھا اور واں بھچراں (میانوالی) میں ہماری کسان ریلی پہ پولیس حملہ آور ہوئی اور ہمیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور میانوالی جیل ہمارا مقدر ٹھہری۔ پھر قومی اتحاد کی تحریک چلی اور جنرل ضیاء الحق طویل عرصے کے لیے اقتدار پر قابضہو گیا۔ مارشل لا کی اس طویل رات کے خلاف ہزاروںجمہوریت پسندوں نے لمبی جیلیںکاٹیں، کوڑے کھائے اور عقوبت گاہوں میںبدترین تشدد کا نشانہ بنے۔ ممتاز عالم بھی کئی بار جیلوںمیں گئے اور میرے جیسے سوشلسٹوںاور انقلابیوںکے لیے جیل کی طویل رات ختم ہونے کو نہ آئی تاآنکہ آمریت کے سائے ڈھلنے شروع نہ ہوئے۔ جب 1988کے انتخابات ہوئے تو ممتاز عالم گیلانی نے بغیر ایک پیسہ خرچ کیے حلقہ این اے 144سے علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار خاندان کو شکست دی جو 1970کے انتخابات میں بھی کامیاب رہا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے اُن کا قریبی تعلق تھا اور اُنہوںنے انہیںاپنا چیف کوآرڈنیٹر بنایا۔ 2008کے انتخابات ہوئے تو ممتاز عالم پھر سے قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور ملک کے پہلے وزیرِ انسانی قانون۔ وزارت کے پاس کوئی فنڈ نہ ہونے کے باوجود اُنہوںنے انسانی حقوق کے لیے بڑا کام کیا اور جمہوری جدوجہد کے سینکڑوںمجاہدین کی جدوجہد کے اعتراف میںبینظیر ہیومن رائٹس ایکسیلنس ایوارڈ جاری کیا۔ حکومت کے خاتمے پہ جب وہ گھر لوٹے تو خالی ہاتھ تھے۔ اگلے انتخابات میںاُنہیںپارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا اور وہ پیپلز پارٹی کا جھنڈا پہنے آخری آرامگاہ میں سکون کی نیند سو گئے۔ اب عوام اُن کی یاد میںآنسو بہایا کیئںاور اُن کی بیگم ثمینہ عابدہ اُن کی یاد کے دیے جلایا کیئں۔

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا