صدر ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کے پابند نہیں، سپریم کورٹ

June 04, 2020

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کے پابند نہیں، یہ غلط دلیل ہے کہ صدر ایڈوائس پر ریفرنس کونسل کو بھجوانے کے پابند ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی سوالات سے مجھے بہت معاونت ملی، 27 قانونی نکات پر دلائل دوں گا۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے کردار اور قانونی سوال کیے ہیں، سوال ریفرنس کی مبینہ بدنیتی پر ہیں کہ شکایت صدر مملکت کو بھیجنے کی بجائے اے آر یو یونٹ کو پذیرائی کیوں دی۔

فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت کے سوالات پر بھی آؤں گا، پہلے حقائق بیان کرنے دیں، اس میں مقدمے کو سمجھانے میں آسانی ہو گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کی وکالت کون کر رہے ہیں؟ اس پر فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت کی وکالت ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود کریں گے جبکہ وزیراعظم کی وکالت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کریں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم آپ اپنے انداز سے دلائل دیں اور آگے بڑھیں، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرتا ہے، اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے، صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں، ریفرنس کے موادپر صدر کو اپنا ذہن اپلائی کرنا ہوتا ہے، وہ آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنس نامکمل ہونے پر واپس بھیج سکتے ہیں۔

فروغ نسیم نے بتایا کہ بیرون ممالک سے اثاثے لانے کا معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا، کابینہ نے غیر ملکی اثاثے واپس لانے کے لیے ٹاسک فورس بنائی جس کے نتیجے میں اے آر یو کا قیام عمل میں آیا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ 28 اگست کو شہزاد اکبر معاون خصوصی بنے، اسی روز ٹاسک فورس کے قواعد و ضوابط بھی بن گئے، ایک ہی تاریخ میں سارا کام کیسے ہوگیا؟ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ شہزاد اکبر کو اثاثہ جات کے معاملے پر مکمل عبور ہے۔