خیانت اور بدعنوانی قوموں کی بربادی کا سبب

July 10, 2020

مولانا زبیر احمد صدیقی

بدعنوانی ،خیانت ،دھوکادہی ،کارسرکار میں غبن ،ناپ تول میں کمی یہ تمام کرپشن سے تعبیر کیے جاتے ہیں۔قرآن کریم نے جن نافرمان قوموں کی بربادی وہلاکت کی عبرت ناک داستان بیان کی ہے، ان میں خطیب الانبیاء،حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ہے،جس کی تباہی کا سب سے بڑا سبب کفرو شرک کے بعد،اس میں پایا جانے والا کرپشن،بدعنوانی، غبن، ناپ تول میں کمی اور خیانت تھا۔اس قوم کے جلیل القدر پیغمبرحضرت شعیبؑ، ان کے معاشرے میں ایک طویل عرصے تک حق واصلاح احوال کی صدا لگاتے رہے اور انہیں باربارخیانت،ناپ تول میں کمی، غبن،دھوکادہی اورکرپشن کی وبا سے نکلنے اور بچنے کی تلقین کرتے رہے۔ وہ کہتے رہے:’’اے میری قوم! ناپ تول کو مکمل انصاف کے ساتھ پورا کرکے دیا کرو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی (اورکرپشن) نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھیرو۔ (سورۂ ہود)

جب کہ سورۂ آل عمران میں فرمایا گیا:اور کسی نبی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا، وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا، جو اس نے خیانت کر کے لی ہو گی، پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔

اسی مناسبت سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایک ایسی حدیث ہے جسے پڑھ کر انسان کے روگھنٹے کھڑے ہوجاتے ہیں :

حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺنے ہمارے درمیان کھڑے ہوکر (مال غنیمت/ سرکاری خزانے میں) خیانت کا تذکرہ فرمایا، پس اسے اور اس کے معاملے کو بہت بڑا بتایا، فرمایا: ’’قیامت کے دن میں تم میں سے کسی ایک کو ایسا ہرگز نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر منمناتی بکری ہو، اس کی گردن پرہنہناتاگھوڑا ہو، وہ کہے گا:(اے اللہ کے رسول ﷺمدد فرمائیے) تو میں کہوں گا: میں تیرے لئے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، تحقیق میں نے تجھ تک بات پہنچا دی تھی، (میں ہرگز نہ پاؤں کسی شخص کو کہ) اس کی گردن پر آوازیں نکالتا اونٹ ہو، وہ کہے کہ: (اے اللہ کے رسول ﷺمدد فرمائیے) تو میں کہوں: میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (میں کسی کو ایسا ہرگز نہ پاؤں کہ) اس کی گردن پر سونے چاندی کا بوجھ ہو، پھر وہ کہے:(اے اللہ کے رسول ﷺمدد فرمائیے) تو میں کہوں: میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (میں کسی کو ایسا ہرگز نہ پاؤں کہ) اس کی گردن پر لہراتے کپڑے ہوں، پھر وہ کہے:(اے اللہ کے رسول ﷺمدد فرمائیے) تو میں کہوں: میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔(صحیح بخاری:۳۰۷۳، صحیح مسلم:۱۸۳۱)

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہؓسے سوال کیا گیا ، جب ہزار دو ہزار دراہم کی خیانت پر خائن کو روز حشر یہ رقم اٹھا کے لانی پڑےگی تو اس کا کیا حال ہو گاجو سو دو سو اونٹ خیانت کرے، تو فرمایا کہ روزِ حشر تو ایسے شخص کا دانت اُحد پہاڑ کے برابر ہو گا اور اس کی بیٹھنے کی جگہ مقام ربذہ سے مدینہ تک پھیلی ہوئی ہو گی، تو وہ کیوں نہ اتنے اونٹوں کو اٹھا کر لا سکے گا۔( الدر المنثور:۲/۳۷۵)

بد دیانتی اور خیانت کے مرتکب افراد کی قرآن کریم نے جا بجا مذمت اور ان کے لئے وعید بیان فرمائی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والو ں کی۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب و ہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کر لیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔(سورۃ المطففین:۱،۲،۳)

اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ اپنی تفسیر معارف القرآن جلد۸ص۶۹۳پررقمطراز ہیں:قرآن و حدیث میں ناپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیاگیا ہے، کیونکہ عام طور سے معاملات کا لین دین انہی دو طریقوں سے ہوتا ہے، انہی کے ذریعے کہا جاسکتا ہے کہ حق دار کا حق ادا ہو گیا یا نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ مقصود اس سے ہر ایک حق دار کا حق پورا پورا دینا ہے ، اس میں کمی کرنا حرام ہے ، تو معلوم ہوا کہ یہ صرف ناپ تول کے ساتھ مخصوص نہیں ،بلکہ ہر وہ چیز جس سے کسی کا حق پورا کرنا یا نہ کرنا جانچا جاتا ہے، اس کا یہی حکم ہے ، خواہ ناپ تول سے ہو یا عدد شماری سے یا کسی اور طریقے سے ہر ایک میں حق دار کے حق سے کم دینا ’’بحکم تطفیف‘‘ حرام ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺہم پر متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’ائے مہاجرین کی جماعت! پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہوجاؤ گے… اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان کو پاؤ…علانیہ فحاشی جب بھی کسی قوم میں ظاہر ہوتی ہے تو (اس کی پاداش میں) ان کے درمیان طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے پچھلے بڑوں میں نہیں پائی جاتی تھیں،اور نہ ہی کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، مگر انہیں پکڑا جاتا ہے خشک سالی، سخت مشقتوں اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے، اور نہیں روکتے لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ کو مگر (اس کی پاداش میں) ان سے بارش روک لی جاتی ہے، یہاں تک کہ اگر جانور نہ ہوں، توبارش بالکل ہی نہ برسے،اور نہ ہی کوئی قوم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے توڑتی ہے مگر (اس کی سزا کے طور پر) ان پران کا بیرونی دشمن مسلّط کر دیا جاتا ہے جو ان کی ملکیتی و مقبوضہ اشیاء چھین لیتے ہیں، اور جب قوم کے بڑے کتاب اللہ کے ذریعے فیصلے نہیں کرتے تو اللہ ان کے درمیان آپس کی جنگیں ڈال دیتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ:۴۰۱۹)

حضرت بریدہؓ سے مروی رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے ،جو لوگ عہد و پیمان کی مخالفت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو اس کی وجہ سے ان میں قتل و غارت کا دروازہ کھل جاتا ہے اور جس قوم میں بے حیائی اور فحاشی پھیل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر موت کو مسلّط کر دیتا ہےاور جو لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ ان سے بارش کو روک دیتا ہے۔(الدر المنثور:۴/۱۸۰)

ہمارے ملکی بحران، بجلی اور گیس کی کمی، بد امنی اور دہشت گردی کا حقیقی سبب ان احادیث سے بخوبی واضح ہے۔ رسول اللہ ﷺکا ایک غلام ایک جنگ میں غنیمت کی چادر میں خیانت کا مرتکب ہو کر دشمن کے حملے میں راہی اجل ہوا، لوگوں نے اس کی شہادت پر مبارک باد دی، آپﷺنے ارشاد فرمایاکہ چادر میں خیانت کی وجہ سے آگ کے شعلے اس کولپیٹیں گے، لوگوں نے کہا کہ مال غنیمت میں سے کچھ چیزیں تقسیم سے پہلے ہم نے لی ہیں، فرمایا:کسی نے ایک تسمہ چرایا ،یا دو تسمے اٹھائے ،وہ جہنم میں جائے گا۔

معلوم ہوا کہ خیانت ، بدعنوانی اورکرپشن، دنیا و آخرت میں ہلاکت، ذلت، غذائی قلت اور بحران کا باعث ہے، رشوت خور افسر، سود خور تاجر، جوئے باز مال دار نیز چوری ڈکیتی کا مجرم، سرکاری اور مشترکہ مال میں خیانت کا مرتکب ذمہ دار جو کمائی کرتا ہے۔ حقیت میں وہ کمائی اس کے اور اس کے اہل خانہ کی بربادی کا باعث ہوتی ہے، تجربہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی اولاد بد کار و بد چلن اور اہل خانہ باغی ہوتے ہیں، علاوہ ازیں دنیا میں مقدمات، امراض اور مصیبتوں میںابتلاء مستقل اذیت کا باعث ہوتا ہے، جبکہ آخرت کی رسوائی اور تکلیف تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔