کیا پنپنے کی یہی باتیں ہیں

July 23, 2020

ضیاء الحق کے زمانے میں مجھے اپنے بچوں کو ملک سے باہر بھیجنا پڑا۔ بہت تکلیف دہ زمانہ تھا۔ بچوں کی ابھی پڑھنے کی عمر تھی مگر میں اپنی نوکری کی کمائی سے اُنہیں پڑھا نہیں سکتی تھی۔ تکلیف دہ زمانے کو میرے بچوں نے خود محنت کرکے، خود روزی کمانے کے قابل کیا اور بعد میں دونوں بچوں نے بار بار کہا کہ آپ بھی پاکستان چھوڑیں۔ چھ ماہ ایک بیٹے کے پاس اور چھ ماہ دوسرے بیٹے کے پاس گزاریں۔ آپ اپنا لکھنے پڑھنے کا کام جاری رکھیں۔ بچوں کی اس محبت کے جواب میں، میرے پاس انکار کا سودا تھا۔ میں جنتی دفعہ بھی اور جتنے ملکوں میں گئی، مجھے لکھنے کی رغبت نہیں ہوئی۔ میں نے جو کچھ لکھا، اپنے ملک، اپنے گھر اور دفتر میں لکھا۔ بچوں کے پاس سال دو سال بعد جب بچت ہوئی یا کسی کانفرنس میں گئی تو راستے میں ان کے یہاں ٹھہرنے کا پروگرام بنا لیا۔ وہ بھی چار دن کے پکے۔

یہ ساری داستان سنانے کے پیچھے، پاکستان کے مشیروں کے اثاثے، گرین کارڈ اور سٹیزن شپ کے واقعات پڑھ کر احساس ہوا کہ یہ لوگ پاکستان کی خدمت کرنے بطور مشیر آئے ہیں اور وہ جو پاکستانی اور کروڑ پتی ہوکر، عمر کے اس حصے میں ملک کی خدمت کے نام پر کرسیوں پر براجمان ہیں، ماشاء اللہ ان کے اثاثے اس قدر ہیں کہ آرام سے زندگی گزار سکتے ہیں اور یہ پوزیشن، نوجوان پڑھے لکھے قابل اور ملک میں کام کرنے کا شوق رکھنے والے بچوں کے لئے چھوڑ دیں۔جن لوگوں کی اقامت باقاعدہ غیرممالک میں ہے اور اب پاکستان کی خدمت کرنے آئے ہیں تو کیا ان کے پاس سرمائے کے علاوہ وہ اہلیت بھی ہے جو نیا پاکستان بنا سکے۔ اس ملک میں ہی بڑے ہونے والے شبلی اور اسد عمر جیسے وزیر بنے، آخر اس ملک کی خدمت کرنے کے بجائے ہر شام یا تو حزبِ مخالف کے لوگوں کی باتوں کا جواب دے رہے ہوتے ہیں اور یا وزیراعظم کی مدح کرتے نظر آتے ہیں۔ شفقت محمود بھی ان میں شامل ہے۔ دو سال سے اعلان ہو رہا ہے کہ سب اداروں میں یکساں نصاب اور امتحان ہوں گے۔ کل کے اخبار میں تصویر تھی کہ مدارس کے بچوں کے امتحان ہو رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر پورے دو سال سے شفقت کی گفت و شنید ضائع ہوتی نظر آ رہی ہے۔

اُدھر اعلان ہوا کہ وزارتِ مذہبی امور، علیم خان، غلام سرور کے علاوہ دیگر وزراء سے اثاثوں کی تحقیق ہوگی۔ یہ کہانی بھی پرانی ہو گئی۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ میں کس پوزیشن میں خود کو پریشان کر رہی ہوں۔ مجھے پیارے قائداعظم یاد آجاتے ہیں۔ لیاقت علی خان اور دیگر وزراء، جب زیارت میں قائداعظم سے ملنے کم اور کام نکلوانے گئے تھے تو قائداعظم نے کہا تھا کہ انہیں کھانا سرکار کی مد میں نہیں کھلایا جائے گا۔ اب دیکھو تو بجٹ پاس کروانے کیلئے ممبر اسمبلی کو سرکاری خزانے میں کھانا کھلایا جا رہا ہے۔

یہ جتنے ماہرین، مشیر بن کر آئے ہیں۔ کاش ان کے اثاثوں کے ساتھ یہ بھی بتا دیا جاتا کہ انہوں نے کس مضمون میں تیر مارا ہے کہ اس ملک کے محکموں کو چلا رہے ہیں کہ محکمے تو اَڑیل گھوڑوں کی طرح وہیں کے وہیں ہیں۔ ترکش ڈرامہ دن میں 5مرتبہ چل رہا ہے۔ پرانے ڈراموں سے کام چلایا جا رہا ہے اور بقول گزشتہ وزیروں کے، نئے منصوبوں کے نام پر پرانے منصوبوں پر سے پرانی تختیاں اُتار کر نئی تختیاں لگائی جا رہی ہیں۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ تمہیں کیا ہوا کہ یہاں پاکستان میں اکیلی رہنے اور لکھنے پڑھنے کی محبت کو اپنی آبرو بنایا۔ بڑھاپے میں غیرممالک جانے پہ مجھے شان الحق حقی یاد آئے۔ قرآن شریف کی تشریح آخری دنوں میں کر رہے تھے۔ بلاوا آیا۔ چلے گئے، جس بیٹے کے پاس تھے۔ اس نے کفن دفن کا انتظام کیا۔ یہی حال حمایت علی شاعر کا ہوا۔ 93سال کی عمر میں کچھ بھی یاد نہ تھا، چلے گئے۔ جو بیٹا موجود تھا، اس نے کفن دفن کیا اہتمام کیا۔ دُور کیوں جائیں۔ 80سال کی عمر میں جلال الدین احمد کراچی میں خاموشی سے چلے گئے، یاد کرنے والوں نے ژوم کے ذریعہ دنیا بھر میں یاد کیا۔ پاکستانیوں کو ایسے عالم شخص کی خبر بھی نہ ہوئی۔

یہ لوگ باہر بچوں کے پاس کیوں گئے کہ روٹی روزی کا کوئی اہتمام نہ تھا۔ ہمارے آج کے مشیروں کی طرح کروڑوں کمائے نہیں ہیں۔ وہ کروڑوں کمانے والے، اب پاکستان میں جو بچا کھچا ہے اسے سمیٹنے آئے ہیں۔ میں کیوں ملک سے باہر نہیں گئی، مجھے شعر لکھنا اسی زمین نے سکھایا، اسی نے مجھے شاخسار بنایا۔ میرا دل کسی بھی ملک میں جانے کو نہیں کرتا۔ دوچار دن تو ٹھیک ہے مگر چاہے کسی کا جزیرہ ہو کہ محل کہ گھر، مجھے دیسی روٹی اور دال ہی پسند ہے۔کاش میرے وزیراعظم، نواز شریف اور زرداری کی دولت گھسیٹنے کی کوششوں میں، ان سارے مشیروں سے کروڑوں کو بھی کھینچ لائیں کہ وزیراعظم ہائوس کی بھینسیں بیچنے سے تو کچھ نہیں بنا۔ جو بچا کھچا تھا، وہ کورونا نے ایسی جھاڑو پھیری کہ اس وقت فیکٹریوں سے لے کر پان کی دوکانیں بھی بند ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)