زندگی کی گود سے (قسط نمبر 2)

August 23, 2020

وہ بھی باقاعدگی سے قیلولہ کرتے تھے۔ یہ سب لوگ اوائل عُمر سے یعنی جوانی سے، دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کرتے آرہے ہیں۔ یوں وہ تازہ دَم ہوجاتے ، کھانا با آسانی ہضم ہوجاتا اور دن کےوسط میں یہ بھرپور توانائی پالیتے ۔ گویا اُنھیں ایک دن میں، دو دن مل جاتے۔ قیلولہ ہمارے بزرگوں کی زندگیوں کا اہم جزو رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے اس عادت کو ترک کردیا۔ آج بھی بہت سے عرب ممالک میں دفاتر وغیرہ ظہرانے اور قیلولے کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ جنوبی امریکا میں بھی قیلولے کی روایت خاصی مستحکم ہے۔ برطانوی راج میں ہندوستان میں دفاتر کے ساتھ قیلولے کے لیے ’’ریٹائرنگ روم‘‘بنائےجاتےتھے۔ برطانوی رہنما اور وزیراعظم چرچل میں قیلولے کی عادت اس درجہ راسخ ہو چُکی تھی کہ وہ جنگِ عظیم کے دوران بھی قیلولہ کرتا، جسے وہ "Power Nap" کا نام دیتا تھا۔ اس کے بعد وہ جنگی حکمتِ عملی اور امورِ ریاست کی انجام دہی میں بھرپور تازگی اور قوت سے مصروف ہوجاتا۔

قدرت نےہمیں پورابرس میسّر سورج کی روشنی کی صُورت ایک گراں قدر نعمت سے نوازا ہے۔ اس کی اہمیت اُسی خطّے کے لوگ جانتے ہیں، جہاں یہ پورا سال باآسانی میسّر نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں ایک ایساطبقہ جنم لےچُکا ہے، جو بند دفاتر اور صنعتی اداروں کے کمروں میں پورا دن گزارتاہے اور اس نعمت سے محروم رہ جاتاہے۔ اچھی صحت میں اس کی اہمیت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے۔ خوراک میں تازہ موسمی پھل اورسبزیاں غذا کے اہم ترین اجزاہونےچاہییں۔ پانی جتنا ممکن ہو پیا جائے اور دودھ، دہی کو روزانہ خوراک کا حصّہ بنایا جائے۔ ایک دَور میں ’’لسّی‘‘ کو دیہی ثقافت ہی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ یہ تاثر تب تک قائم رہا، جب تک ہمارے لوگوں نے مشرقِ وسطیٰ اور عرب ممالک میں لسّی کو ’’لبن‘‘ اور دیگر صُورتوں میں رائج نہ دیکھ لیا۔ اِسی طرح تخمِ بالنگو (ملنگاں) کا مشروب بیرونی ممالک سے منہگے داموں درآمد ہو کر ہماری اشرافیہ میں بھی رواج پا چُکا ہے۔ درحقیقت کانجی اور دیگر ایسے مشروبات، جو صدیوں کے ارتقا کےدوران یہاں کے مزاج اور ماحول کے مطابق وجود میں آئے، موزوں ترین ہیں۔ دہی کی اہمیت پر دیوان سنگھ مفتون مضمون ’’دہی یا آب ِ حیات‘‘ میں 1904 کا ایک واقعہ لکھتے ہیں۔ کرنل بیڈی جب فیروزپور میں سول سرجن تھے، تو اُن کو معلوم ہوا کہ حکیم اور وید پیچش کا علاج دہی اور چاول بتاتے ہیں اور اس خوراک سے مریض اچھےبھی ہوجاتے ہیں۔

دہی اور چاولوں سے پیچش کے مریضوں کا اچھا ہونا اُن کے لیے تعجب کا باعث تھا، کیوں کہ یورپ اور امریکا میں دہی کھانے کا رواج نہیں تھا ؒاور ایلوپیتھی کی کتابوں میں دہی کا کہیں نام بھی نظر نہیں آتا۔ چناں چہ وہ کئی روزاس حوالےسےسوچتے رہے۔ پھر اس طریقہ علاج کی خود تحقیق کےلیےپیچش کےجراثیم کوشیشے کی پلیٹ پر پھیلا کرخُردبین کےنیچے رکھا اور اُن پر دہی کی لسّی کا ایک قطرہ ڈال دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام کے تمام جراثیم فوراً ہی ہلاک ہوگئے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ چوں کہ چاولوں میں اسٹارچ ہوتا ہے، تو یہ اسٹارج انتڑیوں کے زخموں کو (جو پیچش کےباعث انتڑیوں میں ہوجاتے ہیں) لُبری کیٹ کرکے مندمل کرنے کا باعث بنتا ہے، چناں چہ ان دونوں یعنی دہی اور چاولوں کا مرکب پیچش کے لیے مفید ہے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی اس نئی دریافت کے متعلق طبیّ جریدے میں ایک مضمون بھی لکھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہےکہ اب اسپتالوں میں بھی ڈاکٹر پیچش کے مریضوں کو دہی اور چاول کھانے کی تلقین کرتے ہیں۔

مستنصرحسین تارڑ صاحب نے ایک مرتبہ مجھ سے ایک پرُمعنی جملہ کہا تھا ’’انسان بڑھاپے سے جتنا بھی بھاگ لے، یہ بالآخر اُسے آن پکڑتا ہے۔‘‘ بالآخر انسان جسمانی ضعیفی میں مبتلا ہو کر رہتا ہے۔ ہم روزمرّہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ایک شخص اپنی صحت کا بہت خیال رکھتا ہے، اپنی عُمر سےکم نظر آتا ہے اور اس کی عادات و حرکات میں چُستی ہوتی ہے۔ کچھ عرصے بعد ہماری اُس سے ملاقات ہوتی ہے، تو یوں لگتا ہے، جیسے وہ چند ہی ماہ میں برسوں کی زندگی بسر کرکے بوڑھا ہوگیا ہے۔ یعنی انسان پربڑھاپا(بمعنی ضعفِ اعضا، کم زوری) آہی جاتا ہے۔ اصل کمال تو اس ضعیفی کو زیادہ سےزیادہ مدت تک اپنے بدن سے دُور رکھنا ہے۔ صحت کے بعد خاندان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ مُلک کے طول و عرض میں کئی بنگلے ایسے ہیں جہاں ایک بڈھا یا بڈھا، بڈھی تنہابیٹھے ہیں۔

دولت و آسایش ہے، سہولتیں اور ملازم ہیں۔ سب کچھ ہے سوائے اپنوں کے۔ اس ٹھٹھرتی تنہائی میں کتنے ہی لوگ روزخاموشی سے اپنے آنسوؤں سمیت مرجاتے ہیں۔ اس کےبرعکس چھوٹے سے مکان میں بھراپُرا قہقہےلگاتا، رونق جگائےکنبہ مسرت کی ایک تصویر کی صُورت سامنے آتا ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہر امیر گھرانا تنہا یا متوسّط طبقے کا کنبہ خوشی سےمعمور ہوتاہے۔ اس سے مُراد کسی بھی طبقے کےبھرےپُرے پُرمسرت خاندان کی اہمیت اُجاگر کرنا ہے۔ یہاں پھر تذکرہ مستنصرحسین تارڑ کا آتا ہے۔ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوگئے اور بیماری خاصی پیچیدہ، نازک صورت ِ حال اختیار کرگئی۔ وہ اسپتال میں داخل ہوئے اور ان کے پے درپے کئی آپریشن ہوئے۔ کئی روز وہ بے ہوشی اور نیم ہوشی کے درمیان جھولتے رہے۔ جب وہ مکمل صحت یاب ہوکر اپنے گھر لوٹ آئے تو مَیں نے اُن سے پوچھا کہ ان جیسے تخلیقی ذہن کے قدآور ادیب نے کیا اس بیماری سےکوئی نئی بات سیکھی۔

وہ کچھ دیر سوچتے رہے اور بولے ’’یہ حقیقت میں پہلے بھی جانتا تھا مگر اب میرے دل ودماغ میں پوری طرح جذب ہوگئی ہے کہ یہ شہرت، مقبولیت، نام، مقام سب نظر کا دھوکا ہے۔ جو چیز حقیقی ہے، وہ انسان کا خاندان اور دوچار ہم درد، سچّےدوست ہیں۔ پس باقی سب فریبِ نظر ہے۔‘‘ چند روز بعد ایک ہوٹل میں کھانے کے دوران جب مَیں نے یہ بات امجد اسلام امجد اور چوٹی کے چند ادیبوں کے سامنے دہرائی تو وہ یک زبان بول اٹھے ’’کھرا سچ ہے، بے شک یہی سچ ہے‘‘۔ بڑے بڑے نام وَر لوگ ہیں، جن کی ایک جھلک دیکھنےکوزمانہ ترستاہے، مگر اعلیٰ محفلوں اور مداحوں کےجمگھٹوں سے فارغ ہوکر جب وہ واپس آتے ہیں تو خالی گھر اُن کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔

نیلسن منڈیلا کو بیسویں صدی کی عظیم ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 27برس جیل میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا۔ رہائی کے بعد اُس کے فیصلوں نے اُسے وہ بڑائی عطا کی کہ اُس کے مجسّمے چوکوں پر نصب کیے گئے، ڈاک ٹکٹوں پر اُس کی تصاویر شائع کی گئیں اور اسے اہم ترین اعزازات سے نوازا گیا، مگر وہ بیوی جو 34برس اُس کی رفیق رہی، رفاقت کے دو برس ساتھ نہ گزارپائی۔ رہائی کے فقط دو برس کے اندر منڈیلا اور وِنی میں طلاق ہوگئی۔ باہر اُس کے لیے داد کی صدائیں بلند ہورہی تھیں اور گھر کے اندر بقول خود وہ ’’دنیا کا تنہا ترین آدمی‘‘ تھا۔ جب وہ بسترِمرگ پرتھا، تو اس کی اولاد آپس میں لڑ رہی تھی۔ وہ ایک انتہائی دُکھی آدمی کی موت مرا۔ ایسےکتنے ہی نام تھےاور ہیں، جن کے لیے باہر ڈھول تاشے بجتے ہیں، مگر گھروں میں یا تو سناٹا اُن کا انتظار کرتا ہے یا پھر چیخ پکار روحوں کو گھائل کرتی ہے۔ ایک پُرمسرت خاندان سے بڑی نعمت بھلا کیاہوسکتی ہے۔

موت کا خوف اور زندہ رہنے کی خواہش ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہوتی ہے۔ انسان اولاد کی شکل میں اپنی بقا دیکھتا ہے۔ یعنی اُس کے جین باقی رہتے ہیں۔ ڈاکٹر گیری میئر معروف مفکّر اور ادیب ہیں۔ انھوں نے اپنے اوائلِ جوانی کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ اُن کی طالب علمی کے دَور میں سیاحت اور آوارہ گردی کے دوران ایک درویش نُماشخص سےملاقات ہوئی۔ یہ اُن کی اُس شخص سے ملاقات تھی۔ اُس درویش نے گیری کو ایک مشورہ دیا، جسے اس نے بعد ازاں مختلف جگہوں پر دہرایا۔ درویش کا کہنا تھا، ’’ایک شخص کو مرنے سے پہلے تین کام ضرور کرنے چاہییں، کم ازکم ایک درخت لگائے، ایک کتاب لکھے اور ایک بچّہ پیدا کرے۔‘‘ یعنی ’’تخلیق‘‘ ضرور کرے کہ اُس کے مرنے کے بعد یہ تینوں تخلیقات اُسے زندہ رکھیں گی۔ معروف امریکی ناول ’’رُوٹس‘‘ کامصنف، ایلکس ہیلے کہتا ہے، ’’خاندان ہمیں ماضی سے جوڑتا ہے اور مستقبل سے ہمارے تعلق میں پُل کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ میاں بیوی کے جین ان کی اولاد کو منتقل ہوتے ہیں اور ایک خاندان وجود میں آتا ہے۔ گھریلو آسودگی اپنے ساتھ نسلِ انسانی کے بڑھاوے کا سامان بھی لے کر آتی ہے۔ اولاد نہ ہونے کی صُورت میں بھی میاں بیوی ایک اکائی کی شکل میں ایک دوسرے کے لیے مسرت اور جذباتی سہارے کا باعث بنتے ہیں۔ ایک خوش گوار زندگی کے لیے معاشی استحکام بھی اہم ہے۔

ایک مغالطے کی ماضی میں جگالی کی جاتی رہی ہے کہ ایک محنت کش فٹ پاتھ پرآرام کی نیند سوتا ہے اور سیٹھ اپنی خواب گاہ میں نیند کی گولیاں کھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ فقط ایک نعرہ تھا تاکہ محنت کش بیدار ہوکر ریاست سے اپنا حق مانگنے پر اصرار نہ کریں۔ اسپتالوں میں لاوارث، غریب، بےحال انسانیت کو سِسکتے اور لنگر خانوں کے باہر عزتِ نفس بالائے طاق رکھ کر قطارلگائےضرورت مندوں کو دیکھ لینے ہی سے اس مغالطے کی نفی ہوجاتی ہے۔ دولت مند ہونا ضروری نہیں، مگر اتنے معاشی وسائل ضرور ہونے چاہییں کہ اپنی عزت ِ نفس تیاگ کر کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں، اولاد کی تعلیم اور بیماری کے لیے مناسب رقم پس انداز ہو، خوشی اورغم کے مواقع پرانتظامات کے لیے سرمایہ ہو اور محفوظ و پرُسکون بڑھاپے کے لیے مناسب معاشی سامان ہو، تب ہی حال خوش گوار ہو سکتا ہے۔ معاشی تحفّظ کے حوالے سے میرا ایک اور مشاہدہ ہے۔ وہ بزرگ جو اپنی پوری جائداد اپنی زندگی میں اولاد میں تقسیم کردیتے ہیں، بعد ازاں خاصی پریشانی اُٹھاتے ہیں۔

ہمارے اِردگرد بے شمار کہانیاں موجود ہیں، جہاں اولاد، ماں باپ سے پوری جائداد کی تقسیم کا تقاضا کرتی ہے۔ ایسے مطالبات کو ٹال دینا بہتر ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ اگر اولاد اہل ہے تو اپنے وسائل خود پیدا کرلے گی اور اگر نا اہل ہے تو جو ملے گا، اُسے بھی ضائع کردے گی۔ اگر اولاد میں ساری جائداد بانٹ دی جائے تو اس صورت میں جائداد کی تقسیم ہی پر اختلافات جنم لے لیتے ہیں اور اولاد ماں باپ کے سامنے، اُن کی زندگی ہی میں باہم دست و گریبان ہونے لگتی ہے، جب کہ دوسری صُورت میں وہ ماں باپ کو نظرانداز کردیتی ہے۔ ماں باپ کا رشتہ ہی خوش گمانی کا ہے کہ اولاد تابع دار اورخیال رکھنے والی رہے گی۔ کم کم ہی والدین ہیں، جن کی توقعات تقسیمِ جائداد کے بعد حقیقت میں پوری ہوتی ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ والدین کو سب کچھ اولاد کو دے دینے کے بعد چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیےان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔

خاور میر صاحب جیسے بیٹے نایاب ہیں۔ سیال کوٹ کے صنعت کار اور مخیّرشخصیت، خاور میر سیلف میڈ آدمی ہیں۔ ایک مرتبہ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ کیا ان کی والدہ ان کے ساتھ رہتی ہیں تو انھوں نے جواب دیا، ’’نہیں، مَیں اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہوں‘‘ اپنے والدین کی خدمت میں انھوں نے عملی طور پر کمال کردیا۔ بہرحال، یہ قصّہ کسی اور وقت کے لیے۔ مَیں نے ایک ایسا اندوہ ناک واقعہ بھی دیکھا کہ ایک اعلیٰ حسب نسب کے والد نے اپنا بنگلہ بیٹی کے نام کردیا اور بیٹی نے معمولی اختلاف پر باپ کو اُسی کےگھر سے نکال دیا۔

حقیقی زندگی ہمارے عمومی معاشرتی تصوّرات سے خاصی مختلف ہوتی ہے۔ ایوب خان کے دَور کے بائیس امیر ترین خاندانوں میں سے ایک رئیس خاندان کے صاحب ِ اولاد سربراہ کی موت ایک کلب کے کمرے میں تنہائی کاٹتے ہوئے ہوئی اور اس کے جنازے میں چند بیرے اور خانساماں ہی شریک ہوئے۔ ایسے کتنے ہی عبرت انگیز واقعات ہمارے اِردگرد بکھرے ہوئے ہیں۔ پس، سبق حاصل کرنے کے لیے نظر چاہیے۔ معاشی ترقی و تحفّظ پر بےشمار کتب اور لاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں۔ معاشی تحفّظ پرچند بنیادی اصول پیشِ خدمت ہیں۔ اپنے ذرائع آمدنی کے اندر رہنا چاہیے، باقاعدگی سے بچت کرنی چاہیے، خُوب سوچ سمجھ کر، لالچ میں آئے بغیر، پوری معلومات کے ساتھ سرمایہ کاری کرنی چاہیے، سب انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہئیں یعنی سرمایہ کاری کو مختلف منصوبوں میں لگانا چاہیے اور ایک سے زیادہ ذرائع آمدنی ہونے چاہئیں۔ اپنے ذرائع آمدنی میں رہنے کے حوالے سے برطانوی مصنف، چارلس ڈکنز کے ناول کا ایک کردار، مسٹر مکابر دریا کو کُوزے میں سمو دیتا ہے جب وہ کہتا ہے ’’سالانہ آمدنی بیس پاؤنڈ، سالانہ اخراجات ساڑھے انیس پاؤنڈ، حاصل خوشی۔

سالانہ آمدنی بیس پاؤنڈ، سالانہ اخراجات ساڑھے بیس پاؤنڈ، حاصل پریشانی‘‘۔ مقررہ آمدنی والوں کے لیے دس فی صد سالانہ بچت کو مناسب قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں آمدنی کے فوری بعد دس فی صد کو پہلے بچا لیا جاتا ہے اور بقیہ نوّے فی صد میں اخراجات کیے جاتے ہیں۔ اس ابتدائی بچت کو ’’اپنے آپ کو ادائی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بچت کی پراپرٹی، اسٹاکس، بچت سَرٹیفیکیٹس وغیرہ میں تواتر کے ساتھ سرمایہ کاری اس رقم میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ویسے تو ماہرین کہتے ہیں کہ قدر سرمائے کی نہیں بلکہ درست وقت پر درست فیصلے کی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، درست جگہ پر سرمایہ کاری ایک وسیع موضوع ہے۔ اس حوالے سےبنیادی بات یہ ہے کہ سرمایہ کاری اُسی شعبے میں کی جائے، جس سے متعلق جان کاری ہو اور ایک سے زیادہ شعبوں میں سرمایہ کاری کی جانی چاہیے (رقم خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو)۔ املاک یعنی پراپرٹی کے حوالے سے ایک برطانوی ماہر کا دہائیوں سے چلا آتا مقولہ ہے ’’پراپرٹی وہاں خریدو، جہاں شہر ختم ہوتا ہےاورشہر کہیں ختم نہیں ہوتا۔‘‘یعنی شہر پھیلتا رہتا ہے۔

وہ علاقے، جو شہر کے نواح میں سمجھے جاتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ بیچ میں آجاتے ہیں۔ ماہرین کہتے آئے ہیں کہ کام یاب اور مطمئن زندگی کے لیے ایک سے زیادہ ذرائع آمدن ہونے چاہئیں۔ ایک رستہ بند ہوجائے، تو دوسرا اور تیسرا کُھلا رہنا چاہیے کہ ایک ذریعے پر انحصار کرنے والےکسی ناگہانی مسئلے کے نتیجے میں اُس کے ختم ہوجانے پر آناً فاناً عشرت سے عُسرت پر آجاتے ہیں۔ معاش میں ترقی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کام یابی کا کوئی ایک کلیہ یا فارمولا نہیں، جو ہرشخص اور ہر صورتِ حال کےلیے درست اور موثر ہو۔ (جاری ہے)