2 سال: حکومت اب عوام کو خوش کرنے کا کارنامہ بھی دکھائے

August 27, 2020

مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد مسلسل کرفیو کا ایک سال گزرنے کے باوجود بھی وادی میں کشمیریوں کی جدوجہد اور احتجاج ختم نہ ہو سکا پانچ اگست کو 10لاکھ بھارتی فوجیوں کے مسلح حصار میں گھرے کشمیریوں سے ہم نے اخلاقی اور سفارتی تعاون کا اظہار کیا مگر کاش ہم نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے بھارتی حکمرانوں کو سبق سیکھانے میں کامیاب ہوتے مقبوضہ کشمیر کا دارالحکومت سرینگر کئی دہائیوں سے فوجی چھائونی میں تبدیل ہے حریت کانفرنس کے قائدین کئی کئی برسوں سے جیلوں میں قید اور اذیت کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں ہزاروں کارکن بار بار جیلوں میں بند کئے جاتے ہیں مگر انہیں آزادی کی جدوجہد سے روکنے کی کوئی سازش کامیاب نہ ہونے پر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کو لاکھوں کی تعداد میں ڈومیسائل جاری کرکے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی جس سازش کا آغاز کیا تھا۔

اس پر عمل جاری ہے مگر بدقسمتی سے اقوام عالم خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہیں جبکہ مظفرآباد سے بھی صرف جہاد کا اعلان کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے مگر اس کو بھی حکمرانوں کی آشیرباد نہیں مل سکی، انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کے بیان میں ہماری کشمیر پالیسی کو بے نقاب کر دیا ان کا یہ کہنا کہ دفتر خارجہ اور اداروں نے صرف کشمیریوں کو ہی نہیں وزیر اعظم کو بھی مایوس کیا دفتر خادجہ کام کرتا تو دنیا کشمیر پر ہماری بات سنتی اب قوم حکمرانوں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کشمیری ہمارے کیا ہیں اور ان کی آزادی کے لیے کیا ہم صرف زبانی باتیں کریں گے؟

جس طرح حکمران حلقے بضد ہے کہ عمران خان کہیں نہیں جا رہے ان کا اقتدار پانچ سال سے طویل بھی ہو سکتا ہے بالکل اسی طرح اپوزیشن بھی متحد رہنے پر مجبور ہے چھوٹی موٹی راناضگیاں اور بدمزدگیاں تو جاری رہیں گی، مہنگائی سرچڑھ کر بول رہی ہے جس پر قابو پانا حکومت کی ضرورت ہے عوام سخت پریشان ہیں کورونا لاک ڈائون کے دوران وزیراعظم کی طرف سے احساس پروگرام کے ذریعے انتہائی غریب لوگوں کی بارہ ہزار روپے نقد امداد سے غربت میں تو کمی نہیں آئی مگر بے روزگار نان نفقہ سے محروم ہونے سے بچ گئے، سیاسی حلقے حکومت کی اس پالیسی کو کامیابی ایک زینہ قرار دیتے ہیں سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان پیلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمان کی خواہش کے باوجود اپوزیشن کی اے پی سی کا شیڈول طے نہ ہونا بھی حکومت کی ایک کامیابی ہے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نیب کے حصار میں ہیں اور یہ محرم الحرام سے قبل آل پارٹیز کانفرنس کے امکانات بالکل نہیں ہیں۔

تاہم ستمبر کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں اپوزیشن قیادت کی ملاقاتیں شاید اے پی سی کی تاریخ کا تعین کرنے میں کامیاب ہو جائیں، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ مریم نواز کی خواہش ہے کہ اس کا چچا بھی باپ کی طرح نااہل ہو جائے مریم نواز نے نواز شریف کو اس حال تک پہنچایا مولانا فضل الرحمان کو مشورہ دیتا ہوں کہ جاگتے رہنا کہیں دوبارہ استعمال نہ ہو جانا، آصف زرداری کا بیٹا بلاول باپ کو بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہے مقدمات کے ساتھ ساتھ پاکستان پیلزپارٹی کے لیے سندھ میں اقتدار کو بچانا بھی مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس کے لیے آصف زرداری کی پی ایچ ڈی ہی کام آئے گی سیاسی حلقے آج بھی اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کی حکومت کرپشن کے الزام میں ملوث اپوزیشن لیڈروں کو ہرگز کسی قسم کا ریلیف دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور اگر کسی دبائو میں آکر عمران خان کو شریف فیملی یا زرداری فیملی کو ریلیف دینا پڑا تو اس کے اپنے نظریاتی کارکن بھی ’’اوئے اوئے ‘‘کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور اعلانیہ یہ کہا جا رہا ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود حکومت عوام کو راضی کرنے کا کوئی کارنامہ نہیں دیکھا سکی۔

تاہم نیب کا شکار ہونے والے سیاسی مخالفین کی جیل یاترا ہی ان کی سب سے بڑی کامیابی گنی جا رہی ہے حکمران جما عت کا الزام ہے کہ پچھلے ادوار میں بغیر منصوبہ بندی بجلی اور گیس کے منصوبے شروع کیے گئے بجلی کی سستی پیداوار کے لیے اصلاحات لا رہے ہیں جس سے عوام کو یقیناً ریلیف ملے گا پاکستان مسلم لیگ (ن) بظاہر تو متحد اور متفق نظر آتی ہے مگر مخالفین کا کہنا ہے کہ ہر لیڈر چونکہ نیب کو مطلوب ہے اس لیے ان کی سوچ اور نظریات میں بھی اختلاف نظر آتا ہے شیخوپورہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور اطلاعات ونشریات کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ لاکھوں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کی اپنی رائے بھی ہونی چاہیے۔

جس کا کم ازکم وہ اپنی پارٹی میں تو اظہار خیال کرے شریف فیملی میں کوئی تقسیم نہیں سب اپنی رائے دیتے ہیں مگر جو فیصلہ ہوتا ہے پوری پارٹی یک زبان ہوتے ہیں ،سندھ میں گورنر راج کی باتیں نئی نہیں کئی ماہ سے موضوع گفتگو ہیں مگر پہلے پاکستان پیلزپارٹی کی قیادت دھیمے انداز میں اختلاف رائے کرتی تھی مگر اب نہ صرف انداز تقلم جارحانہ بلکہ دھمکی آمیز ہوتا جا رہا ہے، سینٹ کے سابق چیئرمین سینیٹر رضاربانی کا کہنا ہے کہ پہلے بھی گورنر راج اور کراچی کی علیحدگی کی باتیں ہوئی کراچی ریونیو وفاق استعمال کر سکے یہ خواب پورا نہیں ہو گا الطاف حسین کی موجودگی میں بھی جنرل پرویز مشرف کے دور میں بڑے نقشے اور سازشیں تیار ہوئی مگر انہیں منہ کی کھانی پڑی اب بھی سندھ کو ہڑپ یا تقسیم کرنے کی ہر سازش کا منہ توڑ جواب دیں گے سندھ کے مسائل کو اجتماعی طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

کراچی میں مسائل ضرور ہیں مگر ان سے پوچھے جانے کی بھی ضرورت ہے جو بلدیاتی نظام کے سرخیل تھے اور اس کے لیے باقاعدہ فنڈز لیتے رہے کراچی ایک بڑا شہر ہی نہیں ’منی پاکستان‘ ہے جہاں پانچوں صوبوں اور آزاد کشمیر سے لاکھوں شہری روزگار کے حصول کے لیے یہاں آتے جاتے ہیں مسائل کے حل کے لیے اقتدار پر قابض ہونے کی خواہش کی بجائے وفاق کو مسائل کے حل میں تعاون کرنا چاہیے ،متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں ہونے والے امن معاہدے سے جہاں عربوں اور اسرائیل میں جاری سرد مہری کے خاتمہ کی توقع کی جا رہی ہے وہاں مسلمان ممالک میں اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے کو تاریخی قرار دے رہے ہیں ۔

ایرانی صدر حسن روحانی نے اس معاہدے کو عرب دنیا کی بہت بڑی غلطی اور فلسطینی کاز سے غداری قرار دیا ہے۔ پاکستانی حکومت سعودی عرب سے تعلقات میں پیدا ہونے والی تلخی کے خاتمہ میں کہاں تک کامیاب ہوئی ہے مستقبل قریب میں واضح ہو جائے گا۔