توبہ استغفار اور گناہوں پر ندامت کی ضرورت و اہمیت

September 04, 2020

پروفیسرحافظ حسن عامر

انسان جب کفرو عصیان، غفلت و نسیان کی دلدل میں پھنس کر سرکشی کی روش اختیار کر لیتا ہے ، احکامِ ربّانی اور حدودِ الٰہی سے تجاوز کرتا چلا جاتا ہے تو اس کے ربّ کی طرف سے تنبیہ و سرزنش کے تازیانے مختلف وبائی امرض مہلک بیماریوں اور دیگر ارضی وسماوی آفات و بلّیات کی صورت نازل ہوتے ہیں، جیسا کہ قومِ فرعون پر ان کی پیہم نافرمانیوں سرکشیوں کی پاداش میں معمولی معمولی جانوروں کے ذریعے عذاب نازل کئے جاتے رہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ؛’’آخر کا ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، جوئیں اور مینڈک پھیلائے اور خون برسایا یہ سب نشانیاں (آزمائشیں) الگ الگ کر کے دیکھائیں، مگر وہ سرکشی میں بڑھتے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم تھے ‘‘۔ (سورۃ الاعراف ۔ ۱۳۳)

جب ان پر کوئی بلا اور آزمائش نازل ہوتی تو کہتے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’ اے موسیٰؑ ، ہمارے لیے اپنے پروردگار سے دعا کرو جس کا اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے، اگر تم ہم پر سے اس عذاب کو ہٹا دو تو ہم ضرور تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے اور ہم تمہارے ہمراہ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے، مگر جب ہم اُن پر سے عذاب ایک وقتِ مقررہ تک کے لیے ہٹا لیتے تو وہ اچانک اپنے عہدوپیمان سے پھر جاتے ،تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا، کیوں کہ وہ ہماری نشانیوں کو جھٹلایا کرتے اور نشانیوں سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے ‘‘۔(سورۃ الاعراف ۱۳۴ تا ۱۳۵)

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات میں فرعون اور قومِ فرعون پر نازل ہونے والی ابتلاء اور آزمائش کے ضمن میں درج ذیل پانچ قسم کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔

طوفان۔۔۔ قوم ِ فرعون پر پہلا عذاب طوفان کی صورت میں نازل ہوا ،عربی میں کثرت سے بارش اور سیلاب جو ہر چیز کو بہا کرلے جائے اور غرق کردے، طوفان کہلاتا ہے، اس کے علاوہ ہر شدید اور ملک گیر حادثے کوبھی طوفان کہتے ہیں، اس سے آتشیںژالہ باری ، اولوں میں لپٹی ہوئی آگ بھی مراد لیتے ہیں۔مفسرین نے اس سے کثرتِ اموات اور وبائی امراض بھی مراد لیے ہیں۔

جَرَادٌ۔۔۔ قوم فرعون پر دوسرا عذاب ٹڈیوں کا بھیجا گیا ’ جَرَادٌ ‘ عربی میں ٹڈیوں کو کہتے ہیں، ایک معمولی سا جانور ہے، مگر ٹڈی دل فصلوں کی تباہی اور ویرانی کے لیے مشہور ہے، یہ ٹڈیاں ان کے غلّوں اور پھلوں کو چاٹ کر صفایا کردیا کرتی تھیں۔

قُمَّلْ۔۔۔فرعون اور قومِ فرعون پر تیسرا عذاب ’جوں‘ کا نازل کیا گیا ،قُملَّْ عربی میں جوں، سرسری، گھُن، چھوٹی مکھی اور مچھر کو بھی کہتے ہیں،جوں انسان کے بالوں، کپڑوں اور جسم میں بھی ہوجاتی ہیں جو انسان کے لیے شدید آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں۔ سُر سری، گھن کا کیڑا جو غلے اور اناج میں لگ جاتا ہے اور اس کے بیشتر حصّے کو کھا کر ختم کر دیتا ہے ۔سُرسری کا عذاب زرعی معیشت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے اور جب غلّہ اوراناج کو ہی گھن لگ جائے تو انسان بھلا کس چیز سے پیٹ بھرے گا۔

ضَفَادِعْ۔۔۔فرعون اور اس کی سرکش قوم پر چوتھا عذاب اللہ تعالیٰ نے مینڈکوں کا نازل فرمایا’ضَفْدَعْ‘عربی میں مینڈک کو کہتے ہیں،مینڈکوں کی کثرت نے قومِ فرعون کا کھانا پینا حرام کردیا تھا۔ مینڈک عموماً پانی کے جوہڑوں اور تالابوں میں ہوتے ہیں، یہ مینڈک بھی ابتلا کی صورت میں نازل ہوتے تھے ۔قومِ فرعون کے کھانوں میںِغلّوں میں، بستروں میں اُبلے نظر آتے تھے جس کی بنیاد پر ان کا کھانا پینا اور آرام کرنا حرام ہو گیا تھا۔

دَمٌ۔۔۔ سرکش فرعون اور اس کی ناہنجار قوم پر پانچواں عذاب خون کا نازل فرمایا۔ ’دَمٌ‘ عربی میں خون کو کہتے ہیں ،پینے کا پانی قومِ فرعون کے لیے خون بن جایا کرتا تھا، دریائے نیل فرعونیوں کے حق میں خونیں ہو گیا تھا ۔پانی پینا ان کے لیے نا ممکن ہو گیا تھا ۔۔بعض مفسرین نے اس سے نکسیر کی بیماری مراد لی ہے یعنی ہر شخص کی ناک سے خون بہتا رہتا تھا۔

مختصر یہ کہ حضرت موسیٰ ؑ ہر باران کے لیے عذاب سے خلاصی کی دعا کرتے اور وہ عذاب ٹل جاتا تو قومِ فرعون ایمان لانے کے بجائے کفر و شرک اور انکارِ حق پر جمے رہتے بار بار عذابِ الہٰی کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی جب فرعون اور اس کی قوم کے لوگ حد سے تجاوز کرتے رہے تو اللہ کا عذاب واقع ہو گیا اور فرعون اپنی قوم اور اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ غرق کردیا گیا، فرعون اور آلِ فرعون پر نازل ہونے والے عذاب کے ضمن میں کلام اللہ میں ’رجز‘ کا لفظ بھی مذکور ہے ، رجز عربی میں ’عذاب، بلا‘آزمائش، بیماری اور وبائی امراض کے لیے بھی مستعمل ہے،مگر ان آفاتِ سماوی سے بچنے کا طریقہ ’مؤثرعلاج‘ اور بہترین نسخہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ مقدس میں بیان فرمایا ہے اور وہ ہے توبہ استغفار کے ذریعے رجوع الیٰ اللہ ۔۔یعنی توبہ اور ندامت کے ساتھ اس سے بخشش طلب کرتے ہوئے اپنے ربِ حقیقی کی طرف پلٹنا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ اے مومنو! تم سب مل کر توبہ کرو ،امید ہے کہ تم فلاح پاجائو گے ‘‘۔ (سورۃ النور آیت ۳۱)

مزید ارشاد ہے ـ’’اے ایمان والو! اللہ کے آگے صاف دل سے توبہ کرو، امید ہے تمہارا ربّ تمہارے گناہ تم سے دورکردے گا اور تمہیں جنّت کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا ،جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی‘‘۔ (سورۃ التحریم آیت ۸)

آیاتِ بالا میں باری تعالیٰ صدق و صفائے قلب سے توبہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم خلوص و سچائی سے بارگاہِ الٰہی میں توبہ کرو گے، نہ صرف تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے،بلکہ اس کے بدلے میں تمہیں بہشت بریں کے ایسے باغات عنایت کئے جائیں گے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ توبہ استغفار کا حکم دے رہے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ ’’توبہ اور استغفار‘‘ کے الفاظ کن معانی و مفاہم سے عبارت ہیں۔ توبہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گناہ سے باز آنا، رجوع کرنا لوٹنا۔ اصطلاح شریعت میں ’توبہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ دل میں خوفِ الہٰی رکھتے ہوئے گناہ کو گناہ سمجھ کر بارگاہِ الٰہی میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے اور جو گناہ ہو چکے ہیں، ان پر اظہارِ شرمندگی کیا جائے اور آئندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کا عزم کیا جائے ۔توبہ دراصل نام ہے ندامت و شرمندگی اور پشیمانی کا۔ارشادِ نبویؐہے ’’توبہ کی حقیقت ندامت ہے‘‘۔

یاد رکھیئے ،استغفار بھی عربی لفظ ہے جس کے معنیٰ بخشش چاہنا، مغفرت چاہنا،معافی مانگنا، شریعت کی اصطلاح میں ’استغفار‘ سے مراد یہ ہے کہ اپنے گناہوں پر نادم اور شرمندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بخشش و مغفرت کی درخواست کرنا اس سے گناہوں کی معافی چاہنا اور مغفرت کا سوال کرنا۔استغفار نام ہے طلبِ بخشش و مغفرت کا اور اُس غفور و رحیم پروردگارکی بارگاہ میں معافی کا سوال ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے’’گناہوں کی دوا (علاج)استغفار ہے‘‘جب بندہ اپنے گناہوں پر نادم اور شرمندہ ہوکر اس رحیم و غفور ذات کی بارگاہ ِ نیاز میں شرمساری کے آنسو بہاتا ہے تو اس رحیم و کریم آقا کا دریائے رحمت جوش میں آجاتا ہے تو وہ اپنے خطاکار بندے کو معاف فرمادیتا ہے۔ نجات و مغفرت کو اس کا مقدر بنا دیتا ہے۔ جنّت النعیم کی لازوال نعمتوں اور ابدی راحتوں کا پروانہ عطا فرمادیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اُن کا پروردگار انہیں اپنی طرف سے رحمت اور خوشنودی کی اور ایسے باغات کی خوشخبری دیتا ہے، جن میںاُن کے لیے دائمی نعمتیں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یقیناً اللہ ہی ہے جس کے پاس عظمت والا اجرموجود ہے (سورۃ التوبہ آیت ۲۱ تا ۲۲)مزید ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ (تمہیں) اپنی مہربانی اور فضل سے جنّت اور مغفرت (بخشش) کی طرف بلاتا ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ آیت ۲۲۱)

علاوہ ازیں کلام اللہ میں کسی لا علمی اور نادانی کی صورت میں سرزد ہوجانے والے گناہوں پر فوراً ہی توبہ اور استغفار کا حکم دیا گیا اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’ اللہ اُن کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی سے کوئی بری حرکت کر بیٹھتے ہیں اور پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں

پس ایسے لوگوں پر اللہ مہربانی فرماتا ہے اور وہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے ‘‘(سورۃ النساء آیت ۱۷)

مگر کچھ لوگ عمرِ عزیز کے قیمتی سرمایہ کو یوں ہی گنوا دیتے ہیں اور ساری عمر ظلم و تعدی ،سرکشی و نافرمانی، غلط کاری، عاقبت نااندیشی میں گزار دیتے ہیں اور اپنے رب کی دی ہوئی مہلتِ عمر کی ذرا قدر نہیں کرتے ،گناہ پر گناہ کئے چلے جاتے ہیں۔ سرکشی و طغیانی میں حد سے بڑھ جاتے ہیں،مگر اللہ کے حضور کبھی توبہ و استغفار نہیں کرتے اور اس حالت میں موت سے قریب تر ہوئے چلے جاتے ہیں کہ ایک دن فرشتہ اجل آہی جاتا ہے اور وقتِ نزع جب عالمِ غیب منکشف ہوتا ہے اور موت کا غرغرہ شروع ہوجاتا ہے، تب وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں، مگر اب توبہ کا وقت گزر چکا ہوتا ہے اور اس وقت کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ارشادِ ربّ العزت ہے کہ’’اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو (ساری عمر) برے کام کرتے ہیں ،یہاں تک کہ جب اُن میں سےکسی کی موت آموجود ہوتو اُس وقت کہنے لگتے ہیں، اب میں توبہ کرتا ہوں‘‘(سورۃالنساء آیت ۱۸)

اسی طرح بعض وہ لوگ جو انکار و اعراض اور کفر و شرک کی روش پر قائم رہتے ہیں اور اس ہی حالت میں دنیا سے چلے جاتے ہیں ،ان کے بارے میں بھی قرآن دردناک عذاب اور توبہ کی عدم قبولیت کا اعلان کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور نہ اُن لوگوں کی (توبہ قبول ہوگی) جو حالتِ کفر (وشرک) میں مر جاتے ہیں‘‘(سورۃ النساء آیت۱۸)

قرآنِ عزیز کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا میں مصائب و آلام اور آفات ارضی اور آسمانی بلیات کا نزول اور ناگہانی واقعات و حادثات کا ظہور انسانوں کے اپنے اعمال کی شامت ہے ۔ارشادِ ربّ العزت ہے کہ’’اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے، سو وہ تمہارے اپنے (ہی) اعمال (کی وجہ سے ہے)‘‘(سورۃ الشوریٰ آیت ۳۰)

سابقہ امتوں کے احوال و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اقوام پر جو قہر الٰہی نازل ہوا، وہ ان کی بد اعمالیوں اور بدکاریوں کے سبب ہی نازل ہوا ۔ارشادِ ربِ العزت ہے کہ’’پس ہم نے سب کو اُن کے گناہوں کے سبب پکڑلیا ،اُن میں کچھ تو ایسے تھے، جن پر پتھروں کا مینھ برسایا ،کچھ ایسےتھے جنہیں چنگھاڑ نے آپکڑا اور کچھ ایسے تھے جنہیں ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ ایسے تھے، جنہیں غرق کردیا اوراللہ ایسا نہ تھا کہ اُن ہر ظلم کرتا، لیکن وہ اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے‘‘ (سورۃ العنکبوت آیت ۴۰)

انسان کو اس تمرد وسرکشی کی روش چھوڑ کر حق تعالیٰ کی بارگاہ میں خشوع و خضوع، الحاح وزاری سے توبہ کرنی چاہئے۔ اس سے طلبِ مغفرت اور نزولِ رحمت کی دعائیں مانگنی چاہئیں ، اس کے فضل اور اس کی مہربانی کا سوال کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں انفرادی توبہ کے ساتھ اجتماعی توبہ کا بھی اہتمام ضرور کرنا چاہئے ۔ چنانچہ باری تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں اجتماعی توبہ کی تلقین کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :’’ اے مومنو! تم سب مل کر اللہ کی جناب میں توبہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاجائوگے‘‘۔ (سورۃ التوبہ آیت ۳۱) (جاری ہے)