آپ کا صفحہ: مرشد کے ساتھ ؟

September 13, 2020

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مرشد کے ساتھ ؟

لگ بھگ ایک ماہ بعد محفلِ یاراں میں حاضر ہوں۔ اس بار مہکتا، کِھلتا، حالات حاضرہ کی ترجمانی کرتا، دل کش تتلیوں کے رنگ میں رنگا جریدہ نظروں کے سامنے ہے۔ فاروق اقدس نے مندر کی تعمیر کے ایشو پر لکھا، سوچنے کی بات ہے کہ مودی اور ہٹلر کی سوچ رکھنے والے نام نہاد پاکستانی سیاست دان بھی عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔ فواد چوہدری سے لاکھ اختلاف سہی، مگر اس ایشو پر کم ازکم انہیں سراہنا چاہیے۔ منور مرزا نے پی آئی اے حادثے سے متعلق بہترین تجزیہ پیش کیا۔ ڈاکٹر قمر عباس نے قدرت اللہ شہاب پر لکھا، بہت اعلٰی۔ عالیہ کاشف نے امجد اسلام امجد کی شاعری کا سہارا لےکر اچھی تحریر لکھی۔ عرفان جاوید کا کیا کہنا، نہایت شان دار لکھتے ہیں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر پروفیسر صاحب، مرشد کے ساتھ موجود تھے، مزہ آگیا۔ (پیر جنید علی چشتی، سینٹرل جیل، ملتان)

ج:پروفیسر صاحب کے بھی مرشد …؟؟ وہ کون ہیں بھئی۔ اللہ رحم فرمائے، ہمار ی حالت پر۔

سولہ آنے درست بات

رئوف ظفر اس بار زیرِ بحث لائے عالمی سیاحت کو، منور مرزا کا قلم تو ہمیشہ ہی ملّت کے مقدر کو روشن رُخ کی طرف دیکھنا چاہتا ہے۔ بلاشبہ، پی آئی اے پہلے وقتوں میں باکمال لوگوں کی لاجواب سروس تھی، مگر اب تو بےحال لوگ کی بدحال سروس ہے۔ ڈاکٹر قمر عباس ’’خانوادے‘‘ میں اپنی مثال آپ شخصیت، قدرت اللہ شہاب کو زیرِ قلم لائے۔ عرفان جاوید ’’زمانہ‘‘ کی آخری قسط کے ساتھ مُسکراتے میگزین کے16ویں صفحے پر نمودار ہوئے اور سولہ آنے درست کہہ گئے کہ ’’وقت کو اپنے اچھے خیالات سے حسین بنائو کہ یہی زندگی ہے۔‘‘ہیلتھ اینڈ فٹنس کے تینوں مضامین زبردست معلومات لیے ہوئے تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ماڈل فضّہ ہاشمی کا ہنستا مُسکراتا چہرہ دیکھ کر تتلی رنگ تو کیا، مُسکراہٹ بھی چُرانےآئےہے۔ شفق رفیع کےموضوعِ سخن ’’ہلاکت خیز وائرس اور ہمارے منفی رویّے‘‘ کا نچوڑ بہت واضح تھا کہ رنج و الم سے نجات پانا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ ’’متفرق‘‘ میں گھوٹکی کی ہنرمند خواتین سے متعارف کروایا گیا،تو رفیعہ ملاح سندھ بوائے اسکائوٹس ایسوسی ایشن کی خدمتِ خلق کی رپورٹ پیش کررہی تھیں۔ اور آخر میں ایڈیٹر، سنڈے میگزین اور ان کی پُرعزم ٹیم کو سلامِ عقیدت کہ اُن ہی کے طفیل ہر ہفتے شان دار تحریروں سے مستفید ہورہے ہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو ،میرپور خاص)

غیر علانیہ بندش

نیمروز خان کا کورونا وائرس کو خُوشبو لگانا عجیب سا لگا، لیکن جب ایڈیٹر صاحبہ کو اپناہم خیال پایا، تو ایک عجیب سی خوشی ہوئی، ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر قارئینِ کرام کے لیے ایک نوٹ لکھا ہوتا ہے، میرا خیال ہے، اسے ختم کردینا چاہیے کہ اس کو پڑھ کر مجھ جیسے معصوم لوگ دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں اورلگی لپٹی رکھے بغیر دل کی بات کر دیتے ہیں۔ ویسے بھی میرے خطوط پر ایک غیر علانیہ بندش ہے۔ خالد اطہر نے قاری عبدالباسط سے متعارف کروایا، پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ’’پدر بمقابلہ پسر‘‘ آج کی ایک کڑوی حقیقت ہے۔ وفاقی انشورنس محتسب، ڈاکٹر محمّد خاور جمیل کی بات چیت سے اندازہ ہوا کہ ایسے ہی لوگ مُلک کاقیمتی سرمایہ ہیں۔ عرفان جاوید ’’عجائب خانہ‘‘ میں ’’زمانہ‘‘ کے ساتھ حاضر ہوئے، اور ماشاء اللہ خوب لکھا۔ حیرت ہوتی ہے، اتنے عجیب وغریب موضوعات اُن کے ذہن میں آتے کیسے ہیں۔ منور مرزا نے بجٹ کےچیدہ چیدہ نکات اجاگر کیے اور اچھی تجاویز دیں۔ اس دفعہ آپ نے میرے دو چار خطوط کا مرکّب شایع کرکے طعنہ دیا کہ دس صفحات پر جست مَیں نے بھی لگالی ہے، تو بھئی، جب آپ اتنے خطوط ایک ساتھ شایع کریں گی،تو دس صفحات تو بنیں گے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں حفصہ صدیقی کی ’’شعور‘‘ ایک اچھی کاوش تھی، اتنی گرمی میں موٹے، کڑھت والے ملبوسات دیکھ کر گھٹن کا احساس ہوا، اس لیے فوراً آگے بڑھ گئے۔ کڈنی ہل پارک سے متعلق پڑھاتو بے اختیار جانے کو دل مچلنے لگا۔ پروفیسر مجیب ظفر کو جواب دیتے وقت ہوئے آپ نے فرمایا، ’’سوری، اتنی ڈھیر ساری تعریفوں کے باوجود، اس ہفتے کی چِٹھی کا اعزاز…ہنوز دلّی دور است ‘‘ یعنی نادانستگی میں آپ نے بتا دیا کہ اس ہفتے کی چِٹھی پانے کا معیار کیا ہے۔ ویسے آپ نے اتنا گھٹیا معیار رکھا ہوا ہے، یہ تو مَیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ خیر، اس جریدے میں اسلام آباد میں مندر کی تعمیر سے متعلق تحریر سب سے بہتر تھی۔ ڈاکٹر قمر عباس کی تحریریں خشک، لیکن معلوماتی ہوتی ہیں،ذہنی یکسوئی سے پڑھنے ہی پر سمجھ آتی ہیں۔ ’’اسٹائل‘‘ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ’’عجائب خانہ‘‘ پہنچے، تو عرفان جاوید، ’’زمانہ‘‘کی آخری قسط کےساتھ موجود تھے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مائل، قائل اور گھائل جیسی خُوب صورت تحریر پڑھ کے مزہ آیا۔ ویسے اگر آپ میری باتوں سے گھائل ہوتی ہیں، تو مَیں وضاحت کردوں کہ میں تو بس ایسے ہی بول جاتا ہوں، آپ دل پر نہ لیا کریں۔ (مسٹر معذرت خواہ، نارتھ کراچی، کراچی)

ج: اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کے انتخاب کا معیار اتنا گھٹیا ہے کہ آپ سردھڑ کی بازی لگاکے بھی وہاں تک پہنچنے میں کام یاب نہیں ہوپا رہے، یہ ہم نے غیر دانستہ نہیں دانستہ بتایا تھا۔ اور رہی بات گھائل ہونے اور فضول باتوں کو دل پر لینے کی، تو ہمارا ذوق ابھی اتنا گھٹیا بھی نہیں ہو۔ آپ اپنی خوش فہمیوں کے ساتھ خوش رہیں۔ اور وہ کیا کہتے ہیں، خواجہ آصف ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے؟‘‘ ہر ہفتے آپ کے 3,3 خطوط کے ملغوبے شایع ہورہے ہیں اور ابھی بھی غیر علانیہ بندش … حد ہے بھئی۔

بہت بڑی فین

کیسی ہیں آپ؟ پہلی بار آپ کی بزم میں حاضر ہو رہی ہوں۔ اُمید ہے خوش آمدید کہا جائے گا۔ دراصل مَیں آپ کی بہت بڑی والی فین ہوں۔ آپ کا ذوق تو ماشاء اللہ کیا ہی بات ہے۔ میگزین کا ہر اتوار بےصبری سے انتظار رہتا ہے، مَیں اور عیشا رانا اکٹھے میگزین سے لُطف اندوز ہوتے ہیں اور میگزین چھین جھپٹ کر پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس بار بھی میگزین حسبِ معمول بہت پسند آیا۔ سرِورق پر ماڈل اچھی تھی۔ کورونا …کورونا…کورونا، اوووف!! اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ عرفان جاوید ’’زمانہ‘‘ کی دوسری قسط لیے حاضر تھے۔ پیارا گھر ہمیشہ ہی فیوریٹ رہا ہے۔ ناقابلِ فراموش میں تینوں کہانیاں بہت ہی زبردست تھیں۔ آج بہت خوشی ہو رہی ہے، آپ کو مخاطب کرکے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے اور آپ کا اور ہمارا ساتھ بنا رہے۔ (آمین) (ماہی ر انا،کچہ شاہی روڈ، صادق آباد)

ج:ارے ماہی !!اگر محض مخاطب ہوکر اس قدر خوشی حاصل ہونی تھی، تو یہ چند سطروں پہلے ہی لکھ ڈالتی، اس قدر تکلّف میں کیوں رہی، جب کہ عیشا (غالباً تمہاری بہن) تو پہلے ہی ہمارے قارئین اور لکھاریوں میں شامل ہے۔ بہرحال، اب آتی جاتی ہی رہنا، سدا خوش رہو۔

فخر محسوس ہو رہا ہے

مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے،اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کس طرح کروں۔ مَیں نے اپنے دادا جی سے متعلق جو ٹوٹے پھوٹے خیالات لکھ کر بھیجے اور آپ نے اُنہیں جس طرح بنا سنوار کے شایع کیا، اس پر میں آپ کی بےحد ممنون ہوں۔ پھر میرے خط کو اس ہفتے کی چِٹھی کے اعزاز سے نواز دیا۔ یقین کریں، بہت ہی فخر محسوس ہورہا ہے۔ آپ بہت مہربان، خیال رکھنے والی ہیں۔ بےحد شکریہ، میگزین سے میری محبت و چاہت کچھ اور بھی بڑھ گئی ہے۔ (عیشا نیاز رانا)

ج:تم ضرورت سے زیادہ منکسرالمزاج ہو، تمہاری تحریر، خط اشاعت اور اعزاز کے لائق ہوں گے، تو نوازے گئے ہوں گے۔ سچّی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی یاد نہ دلائے، تو ہمیں تو یاد بھی نہیں ہوتا کہ کس کی چِٹھی کو کب مسند پر بٹھایا گیا۔ ہر ہفتے کی تحریروں میں، جو بھی سب سے بہتر ہو، وہ خودبخود منتخب ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ کوئی پلاننگ نہیں کی جاتی۔ اور رہی تحریر سنوارنے کی بات، تو شاید ہی کوئی تحریر ہو، جس کی نوک پلک نہ سنواری جاتی ہو، مگر ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے یہاں اکثریت ناشُکر گزار لوگوں ہی کی ہے،تم جیسے تھینک فل لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔

پہلی، دوسری، تیسری بات

مَیں ایک عربی خطّاط، قاریہ، اور حافظۃ القرآن و الحدیث ہوں۔ عالمہ کے6سالہ کورس کے پہلے سال میں ہوں اور پرائیویٹ بی اے بھی کر رہی ہوں۔ کافی کم عُمری سے مطالعے کی دل دادہ ہوں اور گھر میں جنگ اخبار ہی آتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے، مَیں لکھنے اور بولنےدونوں کا ہنر بڑے اچھے انداز میں جانتی ہوں کہ بولوں تو دل پہ دستک ہوتی ہے اور لکھنا، جیسے صبا کی موج ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ مَیں ابھی نو آموزوں میں سے ہوں اور اس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہےکہ یہ میرا پہلا خط ہے۔ جو نامعلوم کتنی غلطیوں کا مجموعہ ہوگا، لیکن بہرصُورت کہیں نہ کہیں سے آغاز تو کرنا ہی تھا کہ حرکت میں برکت ہے ۔ اصل بات کی طرف آتی ہوں۔ مَیں ایک ناول لکھنے کی خواہش مند ہوں، تو کیا وہ اِسی اسلوب پر لکھ کے بھیجوں یا ایک سطر چھوڑ کر لکھوں۔ دوسری بات یہ کہ اگر مَیں قسط وار ناول لکھوں، تو کیاتمام اقساط ایک ساتھ بھیجوں۔ تیسری بات یہ کہ اگر ناول قابلِ اشاعت ہوا، تو کتنے عرصے میں شایع ہوگا۔ نیز، کس پتے پر بھیجنا ہوگا۔ ویسے مَیں آپ کے اندازِ تحریر کی بہت مدّاح ہوں۔ میگزین میں شایع ہونے والی آپ کی تمام تحریریں، حد تو یہ ہے کہ وہ تمام تر جوابات، جن سے آپ قارئین کو ’’آپ کاصفحہ‘‘ میں نوازتی ہیں، سب میرے پاس محفوظ ہیں۔ آپ کے جملے سادہ ہوتے ہیں، لیکن جی موہ لیتے ہیں۔ کبھی کبھار جوابات کڑوے بھی ہوتے ہیں، پر اُن میں چُھپی سچائی گلاب سے زیادہ مہکتی ہے۔ (ایمن علی خان، کراچی)

ج:ایمن! پہلی بات ’’خود اعتمادی‘‘ بہت اچھی چیز ہے، لیکن کانفیڈنس کو ’’اوور کانفیڈنس‘‘ میں تبدیل نہیں ہوناچاہیے۔ دوم، یہ کہ چند سطری تحریر سے لے کر ناول تک کا اسلوبِ تحریر یہی مقرر ہے کہ حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھا جائے اور صفحے کی پشت پر بھی لکھنے کی اجازت نہیں، جیسا کہ آپ نے اس خط کے ساتھ کیا ہے کہ کہیں تِل دھرنے تک کی جگہ نہیں چھوڑی۔ سوم، ناول مکمل شکل ہی میں بھیجنا ہوگا، لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ ابھی آپ ناول لکھنے کی اہل ہیں۔ ابتداً مختلف موضوعات پر مختصر مضامین لکھنے کی کوشش کریں، ناول نگاری بہت بعد کی بات ہے اور پھر یہ ہر ایک کے بس کا روگ بھی نہیں۔

اسیر کررکھا ہے

تازہ میگزین میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے دونوں ہی مضامین پڑھنےوالے تھے۔ حالات و واقعات میں منور مرزا نے کیا خوب لکھا، بالکل حقیقی تصویر دکھادی۔ سنڈے اسپیشل میں رئوف ظفر نے کورونا وائرس پر جو دنیا بھر میں کام ہورہا ہے، اُس پر خوب روشنی ڈالی۔ منور راجپوت نے پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی سے اچھا انٹرویو لیا۔ سوال و جواب بہت عُمدہ تھے۔ عرفان جاوید کے ’’عجائب خانہ‘‘ نے تو ہم سب کو اسیر کر رکھا ہے۔ پیارا گھر بھی خوب ہے، دسترخوان کاتو جواب نہیں ہوتا۔ ’’متفرق‘‘ میں شاہان الحق قریشی نے جاپانی بادشاہت کی اچھی کہانی بیان کی۔ اگلے شمارے میں منور مرزا نے ایک بار پھر حالات و واقعات پر بڑی عُمدگی سےروشنی ڈالی۔ خواجہ سرائوں سےمتعلق رپورٹ زبردست تھی۔ میاں والی کی بڑی ڈکیتی پر رپورٹ بھی دل چسپ رہی۔ اور ڈائجسٹ میں ’’اسٹیشن‘‘ کا تو کوئی مول ہی نہ تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

نرجس بٹیا! سدا خوش رہو!!مجھے قوی امید ہے کہ تم اور تمہارے اہل ِ خانہ بخیروعافیت ہوں گے، اللہ تعالیٰ سب کو اپنےحفظ و امان میں رکھے۔ کورونا سےمتعلق تم نےجو مفید معلومات مسلسل کئی شماروں میں فراہم کیں، قابلِ ستائش ہیں۔ جب حضرت ِانسان اپنی حدود سے تجاوزکرتا ہے، تو پھر اللہ اُن کو اُن کی اوقات یاد کرواتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں کورونا نےجو تباہی مچائی، اُس نے اُن کاپورا کلچر تبدیل کرکےرکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ پاک نےمسلمان ممالک کے ساتھ نسبتاً نرم رویّہ رکھا۔ وجہ صرف یہ ہےکہ اللہ کے محبوبؐ نے یہ دُعا فرمائی تھی کہ ’’اے اللہ! میری اُمّت کو دوسری اُمّتوں کی طرح کسی عذاب سے ختم نہ کرنا‘‘ اور یہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّتی ہونے ہی کےباوصف ہےکہ ہم پر ابھی بھی نظرِ کرم ہے۔ یہاں مجھے یاد آیا کہ کورونا کے آغاز میں تم نے بھی ایک مضمون لکھا تھا، جس کا عنوان تھا۔ ’’عدالتِ عظمٰی کا سوموٹو‘‘ بہت ہی شان دار، مربوط، جامع تحریر تھی۔ پھر ’’کورونا اور ہمارے رویّے‘‘ کے موضوع پر تاریخی حوالوں کے ساتھ ایک مضمون لکھاگیا،جس میں مسلمانوں پر مجموعی طور پہ اپنے رویّے بدلنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ مسلمان ممالک کے سربراہان کو عقلِ سلیم عطافرمائےاور پاکستان کو بھی ناتجربے کار، کھلنڈری قیادت کے نت نئے تجربوں، فیصلوں کی مزید زَد میں آنےسےبچائے۔ مُلک کے میڈیا سمیت ہر شعبہ اس وقت جس کٹھن دَور سے گزر رہا ہے۔ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مجاہدِ صحافت، فخر ِمیڈیا، میر شکیل الرحمٰن کو حق و سچ لکھنے اوربولنے کی جوبھونڈی سزا دی جارہی ہے، وہ خود ان ظالموں کےچہرےسیاہ کرنے کا باعث بنے گی،ان شاء اللہ۔ مجھے یقین ہے،جب تک جنگ، جیو میں تم جیسےمحنتی، ایماندار، باوقار صحافی حق و سچ کا پرچم اُٹھائے رہیں گے، دُنیا کی کوئی طاقت میڈیا کو پابندِ سلاسل نہیں کرسکتی۔ ایوب خان نےمولانا مودودیؒ کو پھانسی کی سزا دلوائی، تو اُس وقت ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے چند اشعار کہے تھے۔ یہ غالباً 1953ء کی بات ہے، مَیں اُس زمانے میں پنجاب یونی ورسٹی میں تھا۔ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک جلسے میں وہ اشعار پڑھے گئے۔ ایک شعر مجھے یاد ہے ؎ جذبےکو جنوں تو ہونے دو، تم خیرمنائو زنداں کی.....یہ راہِ حق کے دیوانے، پابندیٔ سلاسل کیا جانیں۔ کوئی لاکھ میر شکیل کو قید، مطیع اللہ جان کو اغوا، حامد میر پر گولیوں کی بوچھاڑ کردے۔ اشتہارات بند کر کے میڈیا ورکرز کو بے روزگار کیاجائے، لیکن یاد رہے کہ فرعون کی گود ہی میں حضرت مُوسٰی پلے تھے۔ اور وہ فارسی ضرب المثل ہے ناں ’’ہر فرعونے را مُوسٰی ؑ و ہر نمرودے را پشّہ‘‘ کہ ’’ہر فرعون کے لیے موسٰی ؑ اور ہر نمرود کے لیے مچھر ہوتا ہے‘‘ تو اللہ جلد کرم کردےگا۔ رائو شاہد اقبال کی آن لائن مویشی منڈی دیکھی۔لگتاہے،اب یہی ہمارا مستقبل ہے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی بہت خُوب صُورت موضوع کے ساتھ حاضر تھیں۔ منور راجپوت نے گُردوں کے علاج پر بہت کارآمد مضمون تحریر کیا۔ عرفان جاوید کا ’’فِکشن کیوں پڑھا جائے؟‘‘ ایک بہت ہی منفرد تحریر ہے۔ ہیپاٹائٹس پر ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا کا مضمون وقت کی ضرورت لگا۔ حضرت مفتی نعیم اور علامہ طالب جوہری پر مضامین پڑھنے کے لائق تھے۔ اللہ ہمارے علماء کی عُمروں میں برکت عطا فرمائے۔ چین کے بارے میں منور مرزا نےخُوب لکھا۔ پیارا گھر، ڈائجسٹ اور ناقابل ِفراموش بھی دل چسپ لگے۔ ماشاء اللہ اس گُل دستے کے تمام ہی پُھول بہت حسین تھے۔ ہاں، بس ایک پُھول کی کمی محسوس ہوئی اور وہ تھا ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ اگر اس پُھول کو بھی باقاعدہ کردو، تو پھر سنڈے میگزین کے اس حسین گُل دستے کی شان مزید بڑھ جائے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ اور تمہارے کھٹّے مٹھے جوابات مُسکرانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ تمام قارئین کو میرا سلام کہنا۔ زندگی رہی، تو پھر ملیں گے۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان،کراچی)

ج: اِن شاء اللہ سر۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تن درستی کے ساتھ لمبی حیاتی دے۔

گوشہ برقی خُطوط

ج: یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قابلِ اشاعت تحریریں شایع ہو ہی جاتی ہیں۔

ج:تمام تر قابلِ اشاعت تحریریں باری آنے پر شایع کردی جاتی ہیں۔ تین ہفتے تو کچھ خاص عرصہ نہیں، عموماً کسی تحریر کی اشاعت میں 2 سے 3 ماہ تو لگ ہی جاتے ہیں۔البتہ آپ جریدے کا باقاعدگی سےمطالعہ جاری رکھیں کہ ہم ناقابل اشاعت تحریروں کی فہرست کا بھی اجراء کرتے ہیں۔ تحریر اگر حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھی ہو، صفحے کی پشت خالی چھوڑی جائے اور لکھائی واضح ہو تو طریقۂ کار درست ہی کہلائے گا۔ اور خیال رہے کہ اگر بذریعہ ای میل بھیجیں تو رومن میں ہرگز نہ بھیجیں۔

ج:آپ نے غلطی کی بالکل درست نشان دہی کی۔ ہم سہواً غلط تصویر شایع ہونے پر معذرت خواہ ہیں۔ آئندہ اس ضمن میں مزید احتیاط برتی جائے گی۔ براہِ مہربانی جب بھی کوئی کوتاہی نوٹ کریں، ضرور اصلاح و رہنمائی فرمائیں۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk