زمین پھٹی نہ آسماں گرا

September 13, 2020

زمیںپھٹی نہ آسماں گرا، جب ایک بنتِمشرق کو ایک بڑی شاہراہ کے موڑ پر جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ ایمرجنسی نمبروں پہ موٹر وے پولیس اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے ناخدائوں کو کالیںکرتی رہ گئی، اُس کی چیخیں سیاہ سناٹے میں کہیں گم ہو کر رہ گئیں۔

کوئی اللّٰہ کا نیک بندہ اُس کی مدد کو نہ پہنچا۔ مملکتِخداداد میں ویسے بھی کبھی کوئی وقوع سے پہلے بروقت داد رسی کے لئے پہنچا ہو تو کوئی فرائضِ منصبی کی ادائیگی میںناکامی کی دُہائی دے۔

ہمیشہ کی طرح، اس بار بھی جس مظلوم خاتون سے اجتماعی زیادتی کی گئی، اُس ہی کو لاپرواہی کا ذمہ دار قرار دے کر، بدکار ڈاکوئوں کے قبیح گناہ کا بوجھ بے گناہ خاتون کی زندہ لاش پہ ڈال دیا گیا۔

گویا سڑکوں، محلوںاور بستیوںمیں دندناتے درندوں کو لگام دینا اور اُنہیں کیفرِ کردار تک پہنچانا ریاستی ذمہ داری میں ثانوی ہے، اپنی عورتوںکو گھروں میں بند کرو اور دوسروںکی خواتین کو ہراساںکرو، اس سماج کی عورت دشمنی کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہ غیرت کا لبادہ اُڑھایا جاتا ہے اور دوسرے پر مردانہ پن کی مونچھیں پھڑکائی جاتی ہیں۔

پدر سری جبر اور جنسی بیمار معاشروں کی گھٹن پہ کوئی کتنے ہی پردے ڈالے اُن کا تعفن رُکنے سے رہا۔ ایسے میں موٹر وے ریپ کے واقعہ پر لاہور کے پولیس چیف کے معیوب و گمراہ کُن خیالات پر کی جانے والی ہمہ گیر مذمت قابلِ ستائش ہے تو اُس سے بڑھ کر انصافیان کی حکومت کے وزراء کے وضاحتی و توثیقی بیانات پہ ایک جرمن کہاوت یاد آ گئی جس کے مطابق کسی کے جنازے کو دیکھ کر کسی نے لواحقین کے لئے دُعا کی کہ خدا تمہیں یہ دن بار بار دکھائے۔

اب عصمت کُش مائنڈ سیٹ (Rapist Mind) کا تحلیلِ نفسی کا تجزیہ شاید کسی بےنتیجہ کمیشن کے قیام سے بہتر ہوگا جو بطورِ قوم ہماری قلبی ماہیت کر سکے اور ذہنی حالت بدلنے میںمددگار ہو۔

اسی طرحکے ایک شخصنے کسی پروگرام میں ببانگِ دہل اس ذہنیت کی توضیح کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کے CCPOکا بیان ’’مظلوم کو شرمندہ کرو‘‘ (Shaming the victim) کے زمرے میں نہیں آتا تاآنکہ عورت اسکرٹ پہن کر سڑکوںپہ دعوتِ گناہ دے۔

گویا دعوتِ گناہ قبول کرنے والا شخص مظلوم ٹھہرا اور حاجت مند بھی حالانکہ یہی وہ جنسی بیمار ذہن ہے جس نے ہمارے ملک کی بچیوںکو بھنبھوڑتی نگاہوں، گستاخفقروں اور جنسی ہراسگی سے اپنے جسموں کی حفاظت کے لئے ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ کی صدائے احتجاج بلند کرنے پہ مجبور کیا۔

اس پر طرح طرح کے وحشت پسند اور جنسیت پسند عورتوں کی اس جنسی ہراسگی کے خلاف دُہائی پہ پل پڑے اور ان معصوم روحوںکو اُنہوںنے ایسے گناہوںکا ملتجی ٹھہرایا جن سے بچنے کے لئے وہ میدان میں اُتری تھیں۔ اِس طوفانِرجعت اور جنسیت میںوہ بھی صفِاوّل میںنظر آئے جن کے نزدیک عورت مرد کی تمام تر سفلی و جنسی خواہشوں کا آلہ ہے یا پھر جو مُجروں میںنوٹ لُٹا کر گھر پہنچ کر بیویوںکو پیٹتے ہیں۔

زنا بالجبر اور بالخصوص بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی گھر گھر پھیلی ہوئی ہے لیکن اُس پر ’’عزت کے نام‘‘ پر سنسر شپ عائد تو کر دی جاتی ہے، یہ بھول کر کہ ایسی ہراسگی اور ریپ کا ہولناک نفسیاتی اثر آخری دم تک جان نہیں چھوڑتا اور ان میں سے کچھ بدنصیب اپنے سے ہوئی بچپن میں زیادتیوںکا بدلہ دوسرے نونہالوں اور خواتین سے لے کر اس شیطانی چکر کو جاری رکھتے ہیں۔

یہ عجب تضاد ہے کہ جن ’’عُریاںاور مادر پدر آزاد مغربی معاشروں‘‘ پہ ہمارے ثناخوانِ تقدیس مشرق تبرے بھیجتے نہیں تھکتے وہاںعورتیںآزادی سے گھومتی ہیں اور بقول CCPOلاہور ایسے واقعات نہیں ہوتے (گو کہ وہاںبھی ریپ بہت ہے)، لیکن وہ بھول گئے کہ ہمارے جیسے ملک میں جہاں صبح شام نفس کو قابو میںرکھنے اور بےحیائی و عریانی کے خلاف اور گناہوں سے تائب رہنے کی دُعائیں ہر وقت مانگی جاتی ہوں وہاں یہ جنسی وحشت، مذہبی انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ کیوںپھیل رہی ہے۔ اس کا جواب شاید دقیانوسی ٹوٹکوں اورجھوٹے مذہبی عطائیوںکے پاس نہ ہو۔

البتہ ہم ماہرینِنفسیات و سماجیات و بشریات سے اس کے عوامل اور وجوہات کا ضرور پتا لگا سکتے ہیں اور ہماری ایسی خاندانی، ریاستی، انسانی، جبلی، معاشرتی اور علمی وجوہات اور کجرویوںاور گمراہیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جن سے افاقہ پا کر ہم ایک صحت مند انسان بن سکتے ہیں۔

اور ہم اس وقت تک صحت مند مرد و زن نہیںبن سکتے جب تک کہ مرد و زن کے تعلق کو برابری، جمہوری، انسانی اور باہمی محبت و شرکت کے رشتوں میںنہیں بدل لیتے۔ کوئی معاشرہ مہذب کہلانے کا حقدار نہیں، جس میںعورت مغلوب و مصلوب ہو۔

عورت کو مرد کے پائوںکی جوتی سمجھا جائے اور یہ اُمید رکھی جائے کہ آئندہ نسلیں متمدن اور صحت مند ہوں گی۔ جنسیات، خاندان، ریاست، پدرشاہی اور سماجی مسئلوںپر فرائیڈ، اینگلز، مارگن، ولیم رائخ، سائمن، ڈی دیور اور پہلی، دوسری، تیسری اور اب چوتھی حقوق نسواںکی تحریکوںکے مصنّفین و مفکرین نے عورتوںکو برابر کا انسان بنانے کی راہ سجھائی ہے۔

چین کے تائو مذہب میں ین (Yin) اور یانگ (Yang) کا ذکر ہے جس میںین یعنی عورت مثبت انسانی خصائل کی نمائندہ ہے، جبکہ یانگ یعنی مرد طاقت اور جبر کا مظہر ہے۔ دیگر الہامی مذاہب میں بھی بدی اور نیکی کے فرشتوںکا ذکر ہے۔

دراصل یہ دو متضاد عناصر نفسیات دانوںکے نزدیک انسان کی سرشت میںہیں، جو اسے مخالف سمتوںمیں کھینچتے ہیں۔ ولہم رائخنے اسے اور طرحبیان کرتے ہوئے تمام برے خصائل کو سیکنڈری ڈرائیوز کا نام دیا ہے، جسے اوپر کی تہہ قابو میںرکھتی ہے۔

اس کے مطابق جتنی جنسی گھٹن ہوگی اتنا ہی جنسی اُبال ہوگا اور برصغیر کے چند بگڑے ہوئےمرد حضرات ’’مردانہ قوت کی بحالی کے شرطیہ نسخے‘‘ تلاش کرتے رہیں گے حالانکہ یہ مسئلہ ایسے لوگوںکے ذہنی خصی پن کا ہے۔

عورتوں کی آزادی اور نجات میں مردوںکی نجات و بہتری ہے۔ اور اگر عورتیںمغلوب رہیںگی تو مرد بھی اپنی سفلی مردانگی کی صلیب پر چڑھے رہیں گے۔ ایسے میںثناخوانِ تقدیس مشرق کیسے حوا کی بیٹی کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔