بھارت کے بےبنیاد الزامات

October 19, 2020

بھارتی وزیر خارجہ سبرامَنیم جے شنکر نے ایک تھنک ٹینک کی آن لائن تقریب میں پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے یہ موقف اختیار کرکے کہ پاکستانی حکومت دہشت گردی کو بطور پالیسی استعمال کرنے کا جواز پیش کرتی ہے جس سے تعلقات کو فروغ دینے میں مشکل پیش آرہی ہے، پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہ ہونے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے کی کوشش کی تھی۔ جے شنکر کا اشارہ واضح طور پر پاکستان کی جانب سے حق خود اختیاری کے لئے کشمیریوں کی سو فیصد جائز جدوجہد کی حمایت کی جانب تھا۔ چنانچہ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے گزشتہ روز بھارتی وزیر خارجہ کی اِس بلاجواز اور روایتی ہرزہ سرائی کو مسترد کرتے ہوئے اِس حقیقت کو اُجاگر کیا کہ پاکستان پر یہ الزام کشمیر میں جاری بھارتی جرائم کو چھپانے کے لئے عائد کیا گیا ہے۔ ترجمان نے صراحت کی کہ یہ بیان بھارت کے قابلِ مذمت رویے کی عکاسی کرتا ہے جس کے تحت اُس نے مقبوضہ کشمیر میں غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ جعلی مقابلوں، تلاشی اور محاصرے کی کارروائیوں کے دوران شہید کئے گئے نہتے کشمیری نوجوانوں، خواتین اور بچوں کو دہشت گرد قرار دینا بھارتی قیادت کے ڈھونگ اور اخلاقی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے۔ ترجمان نے خطے میں کشیدگی کے حوالے سے بھارت کے رویے کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ تجارت اور روابط کے نام نہاد دعویداروں کو دنیا کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ کون علاقائی تعاون اور جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان تعاون کی تنظیم کی پیش رفت کو سبوتاژ کررہا ہے اور کس کے طرزِعمل کی وجہ سے پچھلے چار سال سے سارک کا سربراہ اجلاس نہیں ہو سکا ؟پاکستانی دفتر خارجہ کی یہ وضاحت حقائق کی بالکل درست عکاسی کرتی ہے۔ فی الحقیقت نریندر مودی کے دور میں بھارت میں چانکیائی فلسفے پر اِس شدت سے عمل ہوا ہے کہ پاکستان اور چین ہی نہیں تقریباً تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ اِس کے تعلقات میں کشیدگی نئی انتہاؤں تک جا پہنچی ہے۔ آر ایس ایس جیسی تنگ نظر اور فرقہ پرست ہندو تنظیم سے بھارتی وزیراعظم اور اُن کی پارٹی کی نظریاتی وابستگی نے بھارت کی جمہوری شناخت کو ہندوتوا کی تعصب اور تنگ دلی پر مبنی شناخت سے بدل دیا ہے۔ اِس حقیقت کے عملی مظاہرے بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نت نئی قانون سازیوں اور کشمیر پر ناجائز تسلط کو مستحکم کرنے کی خاطر کئے جانے والے جابرانہ اقدامات کی شکل میں پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ مودی حکومت کی جانب سے خطے ہی میں نہیں پوری دنیا میں دہشت گردی کی منظم سرپرستی اب ایک کھلا راز ہے اور معتبر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے توسط سے اس کی تفصیلات پوری عالمی برادری کے سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں، اقوامِ متحدہ جیسے عالمی ادارے میں بھی اب اِس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اِس صورتحال کی شدت کو کم کرنے کا مودی سرکار کے پاس ایک ہی نسخہ ہے اور وہ ہے دوسروں کے خلاف بےبنیاد الزام تراشی۔ اِس کا سب سے بڑا ہدف پاکستان ہے کیونکہ کشمیر پر اپنے ناجائز تسلط سے دنیا کی توجہ ہٹانے کا بھارت کے پاس یہی ایک طریقہ ہے۔ ورنہ جہاں تک خطے میں امن کیلئے پاکستان کی خواہش کا تعلق ہے تو وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف اپنے حالیہ بیانات میں بخوبی واضح کر چکے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ کشمیر اور دہشت گردی دونوں معاملات پر بات چیت کے لئے تیار ہیں لیکن اس میں کشمیری قیادت کو بھی شریک کیا جانا چاہئے نیز اس سے پہلے کشمیر کا سواسال سے جاری فوجی محاصرہ بھی ختم ہونا چاہئے۔ جے شنکر نے دہشت گردی کو پاکستان کی سرکاری پالیسی قرار دے کر حکومت پاکستان کی اِس معقول پیشکش سے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن عملاً اِس کے نتیجے میں مودی سرکار کا بھیانک چہرہ مزید کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے۔