نیب کا قومی خزانے کو 6.5ارب کا ٹیکہ

January 06, 2021

برطانیہ کے پوش علاقے نائٹس برج پر قائم پاکستانی سفارتخانے کا بینک اکائونٹ لندن میں پاکستانی بینک یو بی ایل میں ہے۔ 17دسمبر 2020کو لندن ہائیکورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں یو بی ایل کو ہدایت کی کہ وہ 30دسمبر 2020تک پاکستانی ہائی کمیشن کے بینک اکائونٹ سے 28.7ملین ڈالر کی رقم براڈشیٹ نامی کمپنی کو ادا کرے۔ بینک نے پاکستانی ہائی کمیشن کو ہائیکورٹ کے فیصلے سے آگاہ کیا کہ وہ عدالتی حکم پر پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ سے براڈ شیٹ کو ادائیگی کرنے کا پابند ہے جس پر پاکستانی ہائی کمیشن نے یو بی ایل کو ہدایت کی کہ اگر سفارتخانے کی اجازت کے بغیر براڈشیٹ کو ادائیگی کی گئی تو ان کے بینک سے تعلقات متاثر ہوں گے۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے اپنے ایک خط میں برطانوی حکومت کو مطلع کیا کہ انہیں ویانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنیٰ حاصل ہے اور ہائی کمیشن کے بینک اکائونٹ سے یکطرفہ طور پر رقم کاٹی نہیں جاسکتی تاہم برطانوی حکومت نے ہائی کمیشن کی مدد کرنےسے معذرت کرتے ہوئے اُسے لندن ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کی ہدایت کی۔ بالآخر پاکستانی ہائی کمیشن کو قومی احتساب بیورو (نیب) پر عائد براڈ شیٹ ایل ایل سی کا 28.7ملین ڈالر جرمانہ (4.5ارب روپے) ادا کرنا پڑا اور اگر 30دسمبر 2020تک یہ رقم ادا نہ کی جاتی تو پاکستانی ہائی کمیشن کا بینک اکائونٹ نہ صرف منجمد ہوجاتا بلکہ پاکستانی سفارتخانے کی عمارت پر بھی چارج لگایا جاسکتا تھا۔

یاد رہے کہ 1999میں مشرف دور میں سیاست دانوں کو ہراساں کرنے کیلئے نیب کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 2003میں نیب نے نواز شریف، بینظیر بھٹو، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے براڈشیٹ نامی کمپنی سے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت کمپنی مذکورہ سیاستدانوں کے برطانیہ سمیت دنیا بھر میں موجود اثاثوں کا سراغ لگاکر نیب کو معلومات فراہم کرے گی اور وصول شدہ رقوم سے کمپنی کو 20فیصد ادا کیا جائے گا لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود براڈشیٹ، نیب کو مذکورہ سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثوں کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہی جس پر نیب نے براڈشیٹ سے معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا جس پر براڈ شیٹ نے لندن کی بین الاقوامی مصالحتی عدالت میں پاکستان کے خلاف کیس دائر کیا اور بالآخر 2018میں مصالحتی عدالت نے براڈشیٹ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے حکومت پاکستان کو 21ملین ڈالرز جرمانے کے ساتھ سود کی مد میں یومیہ 5ہزار ڈالرز کی ادائیگی کا حکم دیا اور یہ جرمانہ سود در سود لگ کر آج 28.7ملین ڈالر ہو گیا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ 2008میں نیب نے براڈشیٹ سے کورٹ سے باہر معاملات طے کرنے کیلئے لندن میں خود کو براڈشیٹ کا نمائندہ ظاہر کرنے والے شخص کو 5ملین ڈالرز کی رقم بھی ادا کی۔ بعد ازاں اس شخص کے انتقال اور براڈشیٹ سے کوئی تحریری معاہدہ نہ ہونے کے باعث عدالت نے براڈشیٹ کو رقم کی ادائیگی ماننے سے انکار کردیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقدمے کی پیروی کیلئے غیر ملکی لافرم ’’ایلن اینڈ اووری‘‘ نے حکومت پاکستان سے 13.5ملین پائونڈز وصول کئے۔ اس طرح حکومت کو 28.7ملین ڈالر جرمانے کے علاوہ 13.5ملین پائونڈ مقدمے کی پیروی اور وکلاء کی فیس کی مد میں ادائیگی کرنا پڑی جو پاکستانی روپیوں میں 6.5ارب روپے بنتے ہیں۔اس معاملے کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ اب یہ روایت قائم ہو گئی ہے کہ بین الاقوامی عدالتوں میں پاکستان کے خلاف کئے گئے کسی بھی فیصلے پر جرمانے کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے کے اکائونٹس کو منجمد اور عمارت پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں عالمی مصالحتی عدالت نے ریکوڈک کیس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریکوڈک پر کام کرنے والی ٹی تھیان کمپنی سے معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے کے فیصلے پر پاکستان پر تاریخ کا سب سے بڑا 6ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھاجو ابھی تک ادا نہیں کیا گیا۔ ایسے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ آنے والے وقت میں ٹی تھیان بھی براڈ شیٹ کی طرح پاکستانی سفارتخانے کے اکائونٹ اور عمارت کو اپنا ہدف بنائے گی جو پاکستان کی بدنامی کا سبب بنے گا۔

پاکستان جس کی آدھی آبادی سطح غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور انہیں یہ معلوم نہیں کہ دوسرے وقت کا کھانا ملے گا بھی یا نہیں، ایسے میں قومی خزانے کے اربوں ڈالر کا ضیاع غریب عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ میاں نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کے اثاثوں کی کھوج لگانے کیلئے جس کمپنی براڈشیٹ کی خدمات نیب نے حاصل کی تھیں، اُس سے تو کچھ حاصل نہ ہوا مگر سیاستدانوں کی کرپشن پکڑتے پکڑتے قومی خزانے کو 6.5ارب روپے کا ٹیکہ لگ گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد ازاں براڈشیٹ نے میاں نواز شریف کے وکیل سے رابطہ کرکے جرمانے کی رقم کی وصولی کیلئے اُن کی مدد طلب کی جس پر نواز شریف نے اس سلسلے میں کمپنی کی کوئی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ آج نیب عوام کوایک بار پھر ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے خواب دکھارہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس سلسلے میں نیب پھر کسی غیر ملکی کمپنی کی خدمات حاصل کرے جس کی مستقبل میں قوم کو بڑی قیمت چکانا پڑے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والے جنرل مشرف، افتخار چوہدری اور اس وقت کے نیب حکام کو کٹہرے میں لائیں اور اُن کے بینک اکائونٹس اور گھروں کو ضبط کرکے نقصان پورا کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب ہو سکے۔