ٹرمپ دوبارہ صدارتی انتخاب لڑیں گے؟

February 28, 2021

امریکا کے سابق صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک ناکام ہوگئی۔ڈیمو کریٹک پارٹی، جو اس تحریک کی محرّک تھی، سینیٹ میں دو تہائی اکثریت ثابت نہ کرسکی۔سابق صدر کے مواخذے میں ناکامی پر یہ سوال سامنے آیا کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ چار سال بعد ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر صدر کے عُہدے کے امیدوار ہوں گے؟یہ سوال اِس لیے بھی اہم ہے کہ مواخذے کی تحریک کی ناکامی نے سابق صدر کو اُن تمام الزامات سے بَری کردیا، جو اُن پر جنوری میں ایوانِ نمائندگان پر عوام کے دھاوا بولنے کے ضمن میں لگائے گئے تھے۔اس واقعے میں اُن کے حامیوں نے عمارت میں گھس کر بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کی تھی۔اُس وقت کہا گیا تھا کہ ان ہنگاموں کی وجہ سے امریکی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا اور امریکا کا ایک جمہوری مُلک کے طور پر سَر شرم سے جُھک گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے مواخذے کی تحریک ناکام ہونے پر کہا’’کہانی تو اب شروع ہوئی ہے اور امریکا کو عظیم بنانے کا کام جاری رہے گا‘‘، جب کہ موجودہ صدر جوبائیڈن نے، جن کا ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق ہے، کہا’’ اِس فیصلے سے لگتا ہے کہ امریکی جمہوریت اب بھی کم زور ہے۔‘‘اگر جوبائیڈن حکومت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو یہ بیان اپنی جگہ اہم ہے، لیکن مواخذے کی ناکامی سے اُنہیں اُس صُورتِ حال سے جان چُھڑوانے کا ایک اچھا موقع مل گیا، جو اُن کے لیے اندورنِ مُلک دردِ سر بنی ہوئی تھی۔ اب جوبائیڈن اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوسکیں گے، جو چیلنجز سے بھرپور ہے۔ ٹرمپ اور اُن کی جماعت، ری پبلکن پارٹی کے لیے اس جیت نے اُنہیں دوبارہ اعتماد کے ساتھ عوام کے سامنے جانے کا موقع فراہم کیا ہے۔

جنوری کے پُرتشدّد ہنگامے نے مغربی اور جمہوری ممالک پر منفی اثرات مرتّب کیے، کیوں کہ دنیا بھر میں امریکی جمہوریت ایک ایسی مثال ہے، جہاں ڈھائی سو سال سے اقتدار کی منتقلی پُرامن طریقے سے ہوتی آئی ہے۔گو کہ تاریخ میں ایسے اِکّا دُکّا واقعات تو ضرور نظر آتے ہیں، جب امریکی حکومتی اُمور تنازعات کا شکار ہوئے، بلکہ دو، تین صدور تو گولی کا بھی نشانہ بھی بنے، ماضی قریب میں صدر بش نے اپنے دوسرے دَور میں انتخابی نتائج چیلنج کیے اور فیصلہ اُن کے حق میں ہوا، جس کے بعد وہ دوسری ٹرم کے لیے بھی صدر بنے، لیکن مجموعی طور پر امریکی شہری کثیر القومی معاشرہ ہونے کے باوجود اپنے مُلک میں جمہوریت کو کام یابی سے چلاتے رہے۔

ہر چار سال بعد انتخابات ہوتے ہیں، جن میں لوگ دو جماعتوں، ری پبلکن پارٹی یا ڈیمو کریٹک پارٹی میں سے اپنے پسند کے امیدوار کو اقتدار میں لے آتے ہیں۔ یہ انتخاب نومبر کے پہلے منگل کو ہوتا ہے، جب کہ فاتح امیدوار صدارت کا حلف اگلے برس 20 جنوری کو اُٹھاتا ہے، اس دَوران صدارتی مہم کی تلخیوں کے باوجود نومنتخب صدر کو تمام ضروری امور پر بریفنگز دی جاتی ہیں، جب کہ سُبک دوش ہونے والا صدر ڈھائی مہینے تک مُلکی معاملات چلاتا رہتا ہے۔وزیرِ اعظم، عمران خان نے چند ماہ قبل اپنی ایک تقریر میں اِس طریقے کو بہت سراہا تھا کہ اِس طرح نئے حکم ران کو ملکی پالیسیز مرتّب کرنے میں آسانی رہتی ہے۔

اُنہوں نے اِس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی نظام ہونا چاہیے۔ امریکا میں صدارتی نظام نافذ ہے، پھر یہ کہ وہ سُپر پاور ہے اور اس حیثیت سے اُس کا عالمی سطح پر اہم کردار ہے، جب کہ ہمارا مُلک مغربی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کا نظام اپنا چُکا ہے اور دنیا میں اس کا کرداربھی خاصا محدود ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ شروع دن سے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے اور اب تک اسی مؤقف پر قائم ہیں۔اُنھوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور اُس کے خلاف اپیلیز دائر کیں، جنہیں متعلقہ ریاستوں کی عدالتوں نے مسترد کردیا۔اِس صُورتِ حال نے ظاہر ہے کہ انتقالِ اقتدار کی رسومات میں تلخی پیدا کی اور ٹرمپ روایات کے برعکس، جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہوئے۔ ٹرمپ اور ڈیمو کریٹس کا معاملہ بہت زیادہ تلخ، بلکہ ذاتیات پر رہا ۔ٹرمپ کی صدارتی مہم میں جس قسم کی زبان استعمال کی گئی، ویسی شاید ہی کبھی امریکی انتخابی معرکوں میں سُنی گئی ہو۔

ٹرمپ ،امریکا میں پہلی مرتبہ ایک قوم پرست امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور اُنہوں نے’’ امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ لگایا۔اُن پر یہ بھی تنقید کی جاتی ہے کہ اُنہوں نے اپنی مہم کا زیادہ انحصار سفید فام آبادی پر رکھا، جس کے نتیجے میں امریکی معاشرہ منقسم ہوا۔یاد رہے، امریکا شروع ہی سے ایک’’ امیگرینٹ معاشرہ‘‘ ہے اور اسے’’ لینڈ آف اپرچیونٹی‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی جس شخص میں ٹیلنٹ ہے، وہ وہاں جاکر اپنی قسمت بدل سکتا ہے۔تاہم، ٹرمپ نے یہ مواقع صرف امریکی شہریوں تک محدود کردئیے۔

وہ اِس اقدام کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اقتصادی بحران اور چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی پالیسیز نے عام امریکی شہریوں، خاص طور پر مِڈل کلاس کو قلاش کردیا۔یہ حقیقت ہے کہ جب پہلی بار ٹرمپ صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے، اُس وقت کہا جاتا تھا کہ مِڈل کلاس امریکی شہریوں کے لیے اپنی آمدنی میں گھر کا بجٹ بنانا مشکل ہوگیاہے۔ٹرمپ کی قوم پرستی کا جادو ایسے ماحول میں کام کرگیا اور ہلیری کلنٹن جیسی مضبوط امیدوار کو شکست دینے میں کام یاب رہے۔ اِس پس منظر میں ٹرمپ کی جانب سے شکست تسلیم نہ کرنے کی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے۔

ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے انتخابی نتائج کے بعد ہونے والے پُرتشدد ہنگاموں کے سبب سابق صدر اور اُن کی پارٹی پر عام شہریوں اور میڈیا کی جانب سے بہت زیادہ دبائو تھا، جس کی وجہ سے اُنھیں کئی معاملات پر قدم پیچھے ہٹانے پڑے۔ درحقیقت، ہلیری کے مقابلے میں ٹرمپ کی جیت کو امریکی میڈیا نے اپنی شکست سمجھا اور اُس نے اُن کے خلاف سخت، بلکہ جارحانہ رویّہ اپنائے رکھا۔ڈیمو کریٹس بھی اپنی اس شکست کو نہیں بھول پائے، شاید اِس لیے بھی اُنہوں نے امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سابق صدر کے مواخذے کا فیصلہ کیا۔

اُن کا خیال تھا کہ وہ ہنگاموں کی بنیاد پر ٹرمپ کو ہمیشہ کے لیے امریکی سیاست سے باہر کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔نیز، وہ پُرامید بھی تھے کہ مواخذے کی تحریک کی کام یابی کے لیے اُنھیں باآسانی مطلوبہ اکثریت حاصل ہوجائے گی کہ ٹرمپ کی پارٹی کے ارکان بھی اُن کی حمایت کریں گے، مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ اِس موقعے پر ری پبلکن پارٹی نے فیصلہ کیا کہ اب ڈیموکریٹس کو مزید اسپیس دینا خطرناک ہوگا اور اگر مواخذے کی تحریک کام یاب ہوگئی، تو وہ اگلے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔

اِسی لیے جب سینیٹ میں ووٹنگ ہوئی، تو ری پبلکن پارٹی اپنے سابق صدر کے ساتھ رہی اور تحریک ناکام بنا دی۔ جہاں تحریک کی ناکامی نے جوبائیڈن کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں کہ وہ اب پوری یک سُوئی سے اپنا ایجنڈا پورا کرسکیں گے، وہیں ٹرمپ کے بھی دوبارہ سیاسی میدان میں سرگرم ہونے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج کے پیشِ نظر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ سیاسی میدان میں سرگرم ہونے میں زیادہ وقت نہیں لیں گے۔اِسی لیے اُن کا فوری بیان آیا کہ’’ ابھی تو امریکا کو عظیم بنانے کا عمل شروع ہوا ہے۔‘‘جوبائیڈن حکومت اُن سے مزید لڑائی مول لینے کی بجائے عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے کام کرنا چاہتی ہے۔میڈیا، جو گزشتہ پانچ سالوں سے ٹرمپ کے خلاف محاذ بنائے ہوئے ہے، زیادہ دنوں تک عوام کی توجّہ حاصل نہیں کرپائے گا۔اور اگر وہ یہی پالیسی جاری بھی رکھتا ہے، تو یہ مہم ایک طرح سے ٹرمپ کے حق ہی میں جائے گی کہ میڈیا کی سُرخیاں اُن کا سیاسی کردار زندہ رکھیں گی۔ امریکی عوام، ٹرمپ کے ووٹرز اور ری پبلکن پارٹی یہ نہیں بھولے کہ سابق صدر ایک غیر روایتی سیاست دان ہیں اور وہ پارٹی کو بہت زیادہ ووٹ دلوانے میں کام یاب رہے۔اُن کے دورِ اقتدار میں امریکا نے کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑی، کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے باوجود عوام کو بڑے ریلیف پیکیجز دیے، معیشت قابو میں رکھی اور دنیا میں سب سے پہلے امریکا ہی نے کورونا ویکسین تیار کی۔

ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک سے امریکی جمہوریت میں منتخب ایوانوں کی فیصلہ کُن اہمیت اور مضبوطی بھی سامنے آئی۔اگر ڈیموکریٹک پارٹی چاہتی، تو اُن پر حامیوں کو تشدّد پر اُکسانے کے الزامات لگا کر کیس عدالت لے جاسکتی تھی، لیکن اُس نے یہ جمہوری اصول مدّ ِنظر رکھا کہ منتخب نمائندوں کا فیصلہ صرف منتخب نمائندوں کے ایوانوں ہی میں ہونا چاہیے۔ دونوں جماعتوں کے حامیوں نے اپنی ٹی وی اسکرینز پر مکمل کاروائی دیکھی۔ٹرمپ نے ڈیمو کریٹک پارٹی کو سیاسی طور پر بہت زک پہنچائی، جواب میں اُنہوں نے بھی کارروائی کی، لیکن یہ بات کبھی نہیں بھلائی کہ یہ سیاسی مقابلہ ہے، کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔

مخالفت چاہے کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، فیصلے عوامی نمائندے ہی کریں گے۔اِس طرح وہ باہر کی دخل اندازی کے بغیر اپنے منتخب ایوانوں کی بالادستی قائم رکھنے میں کام یاب رہے۔جمہوریت رویّوں اور روایات کا نام ہے، صرف قوانین اور آئینی شقوں کی تشریح اور اُن کے نفاذ کا نام نہیں۔ اس کا اصل اور بنیادی مقصد عوام کی طاقت کو محفوظ رکھنا ہے، کسی فرد یا پارٹی کو اَمر کرنا نہیں ہے کہ اقتدار کل کسی دوسرے کے پاس ہوگا۔

ٹرمپ کے مواخذے نے ثابت کردیا کہ لوگوں کی خوش حالی، ریاست کی مضبوطی اور نظام کی پائیداری ہر چیز پر مقدّم ہے۔ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ کل پھر امیدوار ہوں، لیکن اِس بات کا اُنھیں بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ جمہوریت سے باہر قدم نہیں نکالا جا سکتا۔امریکا میں تو یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے معاملات خود سنبھال سکتا ہے، لیکن ایسے ممالک، جو ابھی جمہوریت کے تجرباتی مراحل ہی سے گزر رہے ہیں، اس طرح کے چیلنجز سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں پارلیمان کی بالادستی کے دعوے اور مطالبے کیے جاتے ہیں، لیکن جب اسے واقعی بالادست کرنے کا وقت آتا ہے، تو عوام سے لے کر منتخب نمائندوں تک، سب دوسری طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔کبھی طاقت کے مراکز کا ذکر ہوتا ہے، تو کبھی سب کی شراکت کی باتیں گردش کرتی ہیں۔

کبھی اعلیٰ عدلیہ کی جانب نگاہیں جاتی ہیں، لیکن جس پر مکمل بھروسا نہیں کیا جاتا، وہ پارلیمان اور آئین ہے۔الزام لگایا جاتا ہے کہ منتخب نمائندوں میں اہلیت ہی نہیں ہے اور وہ ماضی میں’’ یہ، یہ‘‘ کرتے رہے، نہ جانے کیا کیا باتیں سامنے آتی ہیں۔تاہم، غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب کہاں نہیں؟ جب پورا معاشرہ ہی اخلاقی بحران سے دوچار ہے اور ہر ایک طاقت اور پیسے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، تو پھر فرشتے ایوان میں کہاں سے آئیں گے۔

جہاں آج جمہوریت کام یاب ہے، وہاں بھی ایک زمانے میں یہ سب کچھ ہوتا رہا، لیکن اُنہوں نے جمہوری تسلسل جاری رکھا۔ نت نئے نظام لانے کے تجربے نہیں کیے۔آخر کار عوام کی اجتماعی دانش وہ مرحلہ لے آئی، جہاں سے ایک مستحکم جمہوری مُلک وجود میں آتا ہے۔

امریکا کا حالیہ بحران، برطانیہ کا بریگزیٹ تو ابھی آج کی بات ہے، لیکن جاپان سے جرمنی تک، اگر ان ممالک کی جمہوریت کے سفر کا جائزہ لیا جائے، تو یہ سب ممالک اسی قسم کے بحرانوں سے گزرتے رہے، لیکن ہمّت نہ ہاری۔ سب سے بڑی بات یہ رہی کہ وہاں کے عوام کا اپنے جمہوری ایوانوں پر یقین کبھی متزلزل نہیں ہوا۔اِسی لیے اب وہ مُلک ترقّی کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔