محمد اشرف صحرائی

May 11, 2021

تحریر:محمد صادق کھوکھر۔۔۔۔ لیسٹر
وادی کشمیر ایک مایہ ناز، بہادر اور جہدِ مسلسل سے عبارت شخصیت سے محروم ہو گئی۔ محمد اشرف صحرائی شہید مقبوضہ کشمیر کے وہ نامور سپوت تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں اپنی زندگی آزادی کشمیر کے لیے وقف کر دی تھی۔ وہ سید علی گیلانی کے حقیقی جانشین تھے، اس لیے بھارتی حکومت ان سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ یہ کتنا بڑا صدمہ ہے کہ ان کی حراستی ہلاکت پر بھی بے حس دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہر وقت انسانی حقوق کا رونا رونے والے بھی آج خاموش ہیں بالکل خاموش، محمد اشرف صحرائی ممتاز حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کے دستِ راست تھے۔ سید علی گیلانی آزادی کشمیر کا علم ستر برس سے بلند کیے ہوئے ہیں۔ نوے برس کی عمر میں اب بھی ان کی آواز توانا ہے۔ اشرف صحرائی اس وقت نوعمر تھے جب وہ بھی آزادی کی اس تحریک میں شامل ہو ئے تھے۔ دونوں جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے اہم لیڈر تھے۔ دونوں نے مدتوں جیل کی ہوا کھائی لیکن ثابت قدمی اور پامردی سے بھارتی سامراج کا مقابلہ کیا اور مسلسل ڈٹے رہے۔ سید علی گیلانی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس پیرانہ سالی میں عمر بھر کا ساتھی اور راہ وفا کا ہمراہی داغِ مفارقت دے کر اس جہاںِ فانی سے کوچ کر گیا۔ محمد اشرف صحرائی 1944 میں وادی لولاب کے گاؤں ٹکی پورہ میں پیدا ہوئے۔ یہ ضلع کپوارہ میں واقع ہے۔ انہوں نے اپنی تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی میں حاصل کی۔ وہ تحریک حریت کشمیر کانفرنس کے چیئرمین تھے۔ اشرف صحرائی 1960 میں جماعتِ اسلامی کے رکن بنے۔ تحریکِ آزادی کشمیر کی خاطر وہ پہلی دفعہ 1965 میں پابندِ سلاسل ہوئے۔ 2019 میں انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور کوٹ بھلوال جیل میں قید رکھا گیا۔ جہاں سیکڑوں کشمیری پہلے سے جیل کاٹ رہے ہیں۔ مجموعی طور پر سولہ برس سے زیادہ عرصہ انہوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کے ایک بیٹے مجاہد نے بتایا کہ اشرف صحرائی کئی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ اس کے باوجود روزے رکھ رہے تھے۔ انہیں مناسب طبی سہولتیں میسر نہیں تھیں اس لیے وہ جان کی بازی ہار گئے۔ ان کی تدفین ان کے آبائی علاقے میں کردی گئی ہے۔ سخت پہرے میں صرف چند قریبی رشتہ داروں کو نمازِ جنازہ میں شرکت کی اجازت ملی۔ یہ جنازہ سخت پہرے میں ادا کیا گیا۔ پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا اور اس علاقے کی بجلی منقطع کر دی گئی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے مختلف شہروں میں کرفیو کے باوجود لوگوں نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا۔ ابھی تک مرحوم کے علاقے کو محض اس غرض سے گھیرے میں رکھا ہوا ہے تاکہ لوگ تعزیت کے لیے نہ آ سکیں۔ جموں کشمیر بار ایسوسی ایشن نے ان کی وفات کو حراستی قتل قرار دیتے ہوئے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ سید علی گیلانی نے بھی اسے حراستی قتل کہا ہے۔ اس وقت کشمیر کی جیلوں میں ہزاروں کشمیری جیلوں کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں، جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ اسی طرح تہاڑ جیل نئی دہلی میں یٰسین ملک، شبیر شاہ اور شاہد اسلام سمیت کئی قیدی پسِ دیوارِ زنداں ہیں۔ اشرف صحرائی شہید ایثار و قربانی اور صبر و استقامت کا بہترین نمونہ تھے۔ عزم و استقلال کی ایسی چٹان تھے، جنہیں دنیا کی کوئی طاقت مقصدِ عظیم سے ہٹا نہیں سکی۔ کوئی لالچ انہیں خرید نہیں سکا۔ انہوں نے بڑے مصائب برداشت کیے حتیٰ کہ چھوٹے بیٹے کی شہادت بھی انہیں اپنے عظیم مقصد کی جدوجہد سے باز نہیں رکھ سکی۔ وہ بلند پایہ مصنف اور شاعر تھے۔ انہوں نے 1969 میں ایک میگزین طلوع کے نام سے شائع کرنا شروع کیا جس میں آزادی کشمیر کے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے۔ اپنے مضامین میں وہ آزادی کے متوالوں کو تیار کرتے رہے۔ ان کا کالم صدائے پاکستان بہت مشہور تھا۔ بعد ازاں وہ ہفت روزہ چٹان کے بھی مدیر بنے۔ ان کی تحریریں دوسرے جرائد میں بھی شائع ہوتی تھیں۔ نیز اپنے مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنی شاعری کو بھی ذریعہ بناتے تھے۔ علامہ اقبال کے بے حد مداح تھے۔ اسی لیے انہوں نے طلوع میگزین کا اقبال پرخصوصی نمبر بھی شائع کیا۔ گزشتہ برس ان کے چھوٹے بیٹے جنید صحرائی جو معاشیات کے طالب علم تھےکو بھارتی درندوں نے شہید کر دیا تھا۔ انہوں نے بڑھاپے میں یہ صدمہ بھی بڑے حوصلہ سے برداشت کیا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آزادی کی راہ کٹھن ہے اس کے لیے گھر بار اور بچوں کو کھونا پڑتا ہے۔ ایسے گوہر نایاب ہی قوموں کو آزادی کی منزل کی طرف آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ ہمہ وقت آزادی کے لیے بے قرار رہتے تھے۔ وہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ سادگی اخلاص اور محبت و الفت کا پیکر تھے۔ لیکن سرفروشی، جرات اور عزم و استقلال کا بہترین نمونہ بھی۔ انہوں نے جو عہدِ باندھا اسے وفا بھی کیا اور ایسی لازوال مثال قائم کی جسے آزادی کے متوالےہمیشہ یاد رکھیں گے۔ کشمیری آج بھی جب ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو بھارتی سامراج پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور شکستہ دلوں میں آزادی کی آرزوئیں مچلنے لگتی ہیں۔ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب ظلمت کے اندھیرے چھٹ جائیں گے اور آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ انشاءاللہ