اللّٰہ کی آزمائش اور دیندار طبقہ

June 22, 2021

تحریر:حافظ عبدالاعلی درانی۔۔ ۔بریڈفورڈ

ان دنوں لاہور کے ایک مفتی صاحب ، ان کا مدرسہ اور عام دیندار طبقہ ایک کڑی آزمائش سے گزر رہا ہے ۔دینی مدارس جو پہلے ہی بے دین طبقے کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں انہیں ایک بہانہ چاہیئے تھا ۔مذکورہ مفتی صاحب ایک مشکوک قسم کی وڈیو کی وجہ سے عتاب کی زد میں ہیں اور کئی ایک فاحشہ اداکارائیں بھی میدان میں کود پڑی ہیں ، جن کا اپنا ہر کردار رجم کیے جانے کے قابل ہے ۔ ملحد ، بے دین اور شوبز طبقے نے اتنااس واقعہ کو نہیں اچھالا جتنا دیندار طبقے نے اچھالا ہے ۔ حالانکہ اس قسم کے واقعات میں دیندار طبقے کو ہرگز شریک نہیں ہونا چاہئیے تھا۔خاص طور پر جمعہ کے خطبات میں اس قسم کی گندگی اور بدبو کو اچھالنا بہت ہی محل نظر حرکت ہے۔ اسلام میں ہر قسم کا فحش عمل حرام ہے مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے تصادم کا مرکزی اختلافی نکتہ یہی ہے ، ارتکاب جرم کے بعد اس کی تنفیذ کے بھی شریعت نے قوانین ترتیب دیے ہیں ۔ جرم کا ثبوت مہیا ہوناکرنا بھی کافی پراسس کا محتاج ہے ۔ ہماراملکی قانون اسلامی نہیں مغربی ہے اس لیے اس کا بھی اچھا برا طریق کار ہے ۔ لیکن عام لوگوں کیلئے ایسے جرم کو پھیلانا بہتان بازی کہلاتا ہے جس کی سزا بعض دفعہ جرم سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ خاص طور پر قرآن و حدیث سے واقف طبقے کواشاعت فحش میں ہرگز شریک نہیں ہونا چاہئیے۔کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہرگز نہیں ہے۔ لیکن لاہور کے اس واقعہ کو منظر عام پر آتے ہی دیندار طبقے نے ہلڑبازی کی حد کردی کو ئی سرعام ملزم کی پھانسی کا مطالبہ کررہا ہے اور کو ئی ملزم کو مینار پاکستان سے نیچے گرانے کا مطالبہ کررہا ہے ۔حالانکہ یہ مطالبہ کرنے والے راولپنڈی والے ان مولانا کی غلط پالیسیوں سے جامعہ حفصہ کی سینکڑوں طالبات شہید کردی گئیں ۔ ان مظلوموں کے خون میں اپنے کردار کو نظر انداز مت کریں اور اللہ کے ہاں اس کا جواب تیار کر لیں ۔ لیکن آپ میں سے کسی کو جج کی کرسی پر نہیں بٹھایا گیا کہ آپ فیصلہ سنائیں بلکہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اللہ سے توبہ کریں استغفار کی کثرت کریں ۔ اشاعت فحش کے بارے میں یاد رکھیں کہ بلا تحقیق ایسی باتیں پھیلانے کی شریعت میں سزا کیا ہے ؟ اور اللہ تعالی نے کسی کو کسی کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھنا ۔ سورہ البقرہ آیت۱۳۴۔۱ ۱۴ میں دو جگہ اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔نامزد مفتی صاحب گرفتار ہوچکے ہیں اور اس واقعہ کو سوشل میڈیا پر لانے والا شریک جرم شخص مبینہ طور پر پولیس کی حفاظت میں ہے ، ظاہر ہے اس طرح یہ واقعہ ایک سازش لگ رہاہے مفتی صاحب کسی گہری سازش کا شکار لگتے ہیں ( واللہ اعلم) لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائی ہورہی ہے وہ جانے اور عدالت جانے ۔ لہٰذا اس مسئلہ کو اتنا اچھالنا چاہئیے نہ سزائیں تجویز کرنی چا ہئیں، ملکی قانون خود ڈیل کرلے گا ۔ ہمیں بہرحال اپنے اعمال پر استغفار کرنا چاہئیے ۔ اللہ تعالی سے بری تقدیر کے وار سے بچنے کی دعائیں کرنی چاہئیں ۔ ہر انسان اپنے اعمال کا جواب دہ ہے ۔زبان کھول کر ہم کو کسی جرم میں شریک نہیں ہونا چاہئیے نہ بلاوجہ حمایت کرنی چاہئیے۔ اگر اللہ تعالی نے ہمیں اس قسم کے واقعات میں بطور گواہ شریک کرلیا اور ہم کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے تو کیا حشر ہوگا بہتان تراشی کرنے والوں کااور اشاعت فحش کا۔ دوسرا حکومت وقت سے بھی گزارش ہے کہ جہاں اورکئی اخلاقی معاملات سیدھے کیے جارہے ہیں وہاں سوشل میڈیا پربھی کنٹرول کیا جائے اور اس قسم کے واقعات کی بلاثبوت تشہیر پر بھی پابندی لگادی جائے تاکہ ہمارااخلاق اس تباہی کاشکار نہ ہو۔ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیئے کہ ہم اپنے اعمال کے بارے میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کیاعذر پیش کرسکتے ہیں اور قبر میں سوالات سے کیسے بچ سکتے ہیں؟۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن ( Jacinda Ardern) نےنیوزی لینڈ میں مسجدکے سانحہ پر گفتگو کرتے ہوئے کتنی خوبصورت بات کہی تھی کہ میں مجرم کا نام لے کر اسے زندہ نہیں رکھنا چاہتی اور واقعی انہوں نے نام نہیں لیا۔ آج کوئی بھی اس مجرم کے نام سے واقف نہیں ہے جبکہ سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کی بدولت آج ہم پاکستانیوں کے ذہنوں میں مجرمین اور ملزمان کا پورا کچا چٹھا گھسیڑ دیا گیا ہے ۔حالانکہ بحیثیت ایک مسلمان کے ہمیں الزامات اچھالنے کی بجائے سورہ الحجرات کا ترجمہ اور قرآن کریم کی ایسی اخلاقی تعلیمات اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مسلم کی پردہ پوشی کیلئے نبوی ارشادات یاد ہونے چاہئیں ۔ اسلاکی تعلیمات کے مطابق عدالتی کارروائی کے لیے چار گواہ موقع کے ہونے چا ہئیں ۔ خواہ مخواہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کا یہ شوق بد ہماری اخلاقی گراوٹ کا سبب ہے ۔ آج ہم کسی پر الزامات اچھالیں گے کل کو ہم خود بھی اللّٰہ کی پکڑ میں آسکتے ہیں اور پھر کیا ہم چاہتے ہیں کہ روز محشرہم سب کا کچا چٹھا بھی سب کے سامنے کھول دے ۔؟ یقیناً نہیں ۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے کتنی خوبصورت بات کہی ۔ دوغنی از ہر دو عالم من فقیر روز محشر عذر ہائے من بپذیر ور تو مے بینی حسابم را ناگزیر از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر اے مالک ! تو دونوں جہانوں سے بے پرواہ ہے اور میں ایک فقیر۔ روز محشر تو میرا عذر قبول فرمانا۔ اگر تو میراحساب لینا ناگزیر سمجھے تو سروردوعالم کے سامنے مجھے رسوا نہ کرنا۔