بچوں کی کردار سازی میں والدین کا کردار

August 28, 2021

علیزہ صغیر

پہلا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک ڈاکو کا کہنا ہے کہ میں چوتھی کلاس میں تھا ایک دن مدرسے سے گھر واپس آیا تو اسکول بیگ میں میری پینسل نہیں تھی۔ میں نے جب اپنی والدہ کو بتایا تو انہوں نے مجھے سزا کے طور پر بہت مارا بھی اور ڈانٹا بھی ۔مجھے بے عقل کہا اور یہ کہ مجھ میں ذمہ داری کا احساس نہیں ، اس کے علاوہ جو بھی کہہ سکتی تھیں وہ کہا۔والدہ کے اتنی سختی کےنتیجے میں نے خود سے پکا ارادہ کیا کہ اب اپنی والدہ کے پاس خالی ہاتھ نہ جاؤں گا۔ سو میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنی کلاس کے ساتھیوں کے قلم چرا لوں گا۔

دوسرے دن میں نے منصوبہ بنایا اور کلاس میں موقعہ دیکھ کر نے ایک یا دو قلم چرانے پر اکتفاء نہ کیا بلکہ اپنی کلاس کے تمام بچوں کے قلم چرا لیےاور اپنی والدہ کے سامنے ڈھیر کردئیے ،کہا میری ایک پینسل چوری ہوگئی میں نے سب ہم جماعت کے قلم چوری کرلیے۔ شروع میں ڈرتے ڈرتے چوری کرتا ۔والدہ نے کچھ نہ کہا ،مجھے لگا اُن کا غصہ ختم ہوگیا ۔لیکن قلم چوری سے آہستہ آہستہ مجھے حوصلہ ملا اور میرے دل میں ڈر نہ رہا۔

میں ہم جماعت بچوں کی مختلف چیزیں چرانے لگا ۔ ایک ماہ گزرنے کےبعد مجھے اس کام میں وہ مزہ نہ آیا ،جو شروع میں آیا تھا، سو میں نے ساتھ والی کلاسوں میں جانے کا ارادہ کیا اور پھرایک کلاس سے دوسری کلاس میں چوری کرتےکرتے آخر کارا سکول کے پرنسپل کے کمرے تک چلا گیا۔ یہ سال میرے لیے عملی تجربےکا تھا۔ میں نے نظری اور عملی دونوں طرح سے چوری کرنا سیکھا ،پھر اس کے بعد میں پیشہ ور ڈاکو بن گیا۔

دوسرا واقعہ:

ایک والدہ کا کہنا ہے،جب میرا بیٹا دوسری کلاس میں تھا وہ جب مدرسے سے گھر آیا تو اُس کے بیگ میں پینسل نہیں تھی۔یعنی وہ اپنی پینسل گم کر کے آیا تھا۔میں نے اس سے پوچھا پھر آپ نے اسکول میں کیسے کام کیا یا کام کرنے کے بعد پینسل گم ہو ئی ۔

اس نے کہا: میں نے اپنے کلاس فیلو سے پینسل مستعار لے لی تھی۔اس کا جواب سن کر میں نے اس سے کہا ،یہ تو آپ نے اچھا کیا لیکن آپ کے کلاس فیلو نے کیسے کام کیا جب اس نے آپ کو لکھنے کے لیے اپنی پینسل دے دی ؟

کیا اس نے پینسل دینے کے بدلے میں آپ سے کچھ لیا یا آپ کا خیال رکھتے ہوئے ایسا کیا ؟

اس نے کہا نہیں اس نے کچھ نہیں لیا۔

والدہ نے کہا، میرے بچے اس نے بہت ساری نیکیوں کا سودا کیا وہ آپ سے بہتر ہے،کیوں نہ آپ بھی ایسی نیکیاں کمائیں؟

یہ کیسے ہوگا،ماں؟

والدہ نے کہا: میں آپ کے لیے دو قلم خریدوں گی۔ایک قلم سے آپ لکھیں گے اور دوسرے قلم کو ہم قلم الحسنات کا نام دیں گے۔ایسا اس لیےکریں گے کہ اگر کوئی اپنا قلم لانا بھول جائے یا گم ہوجائے تو آپ اس کو یہ دے دیں گے اور جب اس کا کام مکمل ہوجائے گا تو آپ واپس لے لیں ۔اس سوچ سے میرا بیٹا بہت خوش ہوا اور اس پر عمل کرنے سے اس کی خوش بختی میں بہت اضافہ ہوا اس نے اپنے بیگ میں ایک قلم اپنے لکھنے کے لیے رکھا اور چھ قلم قلم الحسنات کے نام سے رکھے۔

اس واقعہ میں سب سے عجیب بات یہ تھی کہ میرے بیٹے کو مدرسے جانا سخت ناپسند تھا اور وہ پڑھنے میں بھی کمزور تھا ،پھر جب اس نے اس سوچ پر تجربہ کیا تواسے مدرسے سے محبت ہوگئی، اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ کلاس کا تارہ بن گیا، سب اساتذہ اسے پہچاننے لگے اور سارے کلاس فیلوز اس کی تعریف کرتے، جس کسی کا قلم گم ہو جاتا وہ اس سے قلم لیتا اور استاد کو جب پتہ چلتا کہ کوئی اس لیے نہیں لکھ رہا کہ اس کے پاس قلم نہیں تو استاد کہتے، کہاں ہے احتیاطی قلم رکھنے والا بچہ ، آج وہ اپنی تعلیم مکمل کرچکا ہے۔

اس نے شادی کی اللہ نے اولاد سے نوازا لیکن وہ آج بھی قلم الحسنات نہیں بھولا۔ بہت اعلیٰ سبق ہے ماؤں کے لیے، بچوں کو اچھی سوچ دینا ان کے نہ صرف دنیاوی اعمال اور کردار سنوارتا ہے بلکہ آخرت بھی سنوارتی ہے، جب کہ منفی سوچ اس کے برعکس اس کےاعمال کے ساتھ ساتھ آخرت بھی لے ڈوبتی ہے۔ اسی لیے قوموں کے کردار اور اخلاق کو سنوارنے میں ماؤں کا بہت بڑا کردار ہے۔

نوعمری کا زمانہ کتنی اہمیت رکھتا ہے کہ زندگی کے بعض تجربات یا تو بچے کا رخ راہ راست کی طرف کر دیتے ہیں ، وہ گمراہی کے راستوں پر چل پڑتے ہیں، جیسا ایک بچہ ما ں کی سختی سے ڈاکو بن گیا۔ مائیں بچوں کی تربیت پر نہ صرف توجہ دیں بلکہ اُن پر نظر میں رکھیں ۔ اچھے برے کی پہچان بتائیں۔