پنجاب، بلدیاتی انتخابات کا عندیہ

September 17, 2021

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جمہوری نظام کی تکمیل بلدیاتی یا مقامی حکومتوں کے بغیر ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں اسے انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ ان حکومتوں کو بجا طور پر جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے کہ ان اداروں سے نئی لیڈر شپ ابھر کر سامنے آتی ہے۔ دیر سے سہی وزیر اعظم عمران خان کا اپنی پنجاب کی سیاسی ٹیم کو بلدیاتی انتخابات کی تیاری کا کہنا جمہوری اعتبار سے نوید مسرت سے کم نہیں۔ ان کی زیر صدارت پنجاب کے بلدیاتی نظام اور مسودہ قانون کے بارے اجلاس میں وفاقی وزیر اسد عمر، صوبائی وزیر بلدیات محمود الرشید، صوبائی وزیر صنعت میاں اسلم اقبال صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت اور مسلم لیگ ق کے مونس الٰہی اور طارق بشیر چیمہ نے شرکت کی۔ وزیراعظم کو نئے بلدیاتی نظام کے نکات پر بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعظم نے نئے نظام پر مزید غور کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ دیہی اور شہری تقسیم کو مدنظر رکھ کر اقدامات کئے جائیں۔ نظام کی منظوری مزید مشاورت کیلئے موخر کر دی گئی، اتحادی قیادت آئندہ دو تین روز میں دوبارہ غوروخوض کریگی۔ اسے ہمارا المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہماری جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانے سے ہمیشہ گریزاں رہیں، صوبائی حکومتوں نے زیادہ اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی سعی میں بھی ایسا کیا اور کم و بیش جتنے بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے آمرانہ حکومتوں میں ہوئے۔ سوائے 2014ء کے بلدیاتی انتخابات جو عدالت عظمیٰ کے حکم پر مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ہوئے ۔2019ء میں بلدیاتی حکومتیں ختم ہو گئیں اور قانون کے مطابق 120 دن کے اندر نئے انتخاب انعقاد ضروری ہے ۔ اب تو کورونا کی بھی ایسی کوئی مجبوری نہیں چنانچہ پاکستان تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات جلد منعقد کروا کے پاکستان کی پہلی اور واحد سیاسی جماعت بن سکتی ہے جس نے اپنے دور حکومت میں خوشدلی سے بلدیاتی انتخابات کروائے، یہ امر نیک نامی کا باعث بن سکتا ہے حکومت کو اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔