• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں

ہمارے ہاں یہ بات تو تسلسل سے کی جاتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقّی کے بغیر مُلک آگے نہیں بڑھ سکتا، لیکن اِس ضمن میں کام ذرّہ بَھر نہیں کیا جاتا۔ جس طرح قومی پالیسیز بن رہی ہیں اور مُلکی معاملات چلائے جا رہے ہیں، اُن سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ دنیا اِس میدان میں کس قدر لمبی چھلانگیں لگا رہی ہے۔ ہم ابھی تک گِھسے پٹے بیانات اور سُہانے خوابوں ہی پر زندگی گزارنے کو ترقّی سمجھ رہے ہیں۔ ترقّی یافتہ اقوام تیز رفتار ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات کو اپنی معاشرت کا حصّہ بنا چُکی ہیں۔اب اُن کی معیشت، سیاست، تعلیم، صحت، مواصلات اور ماحولیاتی معاملات سب اسی سائنسی ترقّی کے تابع ہیں۔اس کی ایک مثال کووِڈ۔19 سے مقابلے کی شکل میں سامنے آئی۔

ان اقوام نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایک عالمی وبا کو پسپا ہونے پر مجبور کیا، لوگوں کی صحت کا خیال رکھا، ویکسینز ایجاد کیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی معیشت کو بچایا، جو درحقیقت دنیا کو بچانا ہے۔ اس وبا نے سیاست پر بھی اثرات مرتّب کیے، ڈونلڈ ٹرمپ اسی کی وجہ سے شکست کھا گئے اور اِن دنوں برطانوی وزیرِ اعظم لاک ڈائون ضابطوں کے خلاف ایک سرکاری پارٹی میں شرکت پر عوام سے معافیاں مانگ رہے ہیں۔ ہمارے جیسے مُمالک میں تو اِس طرح کی باتوں کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا، حالاں کہ اوپر سے نیچے تک، حکّام قانون کی بالادستی کا سبق پڑھاتے نظر آتے ہیں اور عوام کو قانون شکن طاقت وَر مافیاز کے بارے میں بھی بتاتے ہیں، مگر پھر بھی قانون پر عمل کم ہی ہوتا ہے۔

دنیا کے ضمن میں ایک دِل چسپ اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ طویل لاک ڈائونز کے باوجود سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقّی نہ صرف جاری رہی، بلکہ کئی سنگِ میل عبور کیے گئے۔ یعنی ترقی یافتہ ممالک کی سیاسی قیادت اور حکم رانوں کو اِس بات کا پورا احساس ہی نہیں، یقین بھی تھا کہ اِس میدان میں ترقّی اُن کے لیے ناگزیر ہے،جسے کسی طور رُکنا نہیں چاہیے، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ خلائی سائنس میں غیر معمولی ترقّی دیکھی گئی اور تاریخ رقم ہوئی۔ امریکی ادارے، ناسا نے سورج کے عین درمیان سے ایک اسپیس کرافٹ گزارا، دنیا کی سب سے بڑی خلائی دُوربین لانچ کی گئی، نجی شعبے میں خلا کے سفر کا آغاز ہوا، اسپیس ٹیکسی سروس کا نام سُنا گیا، مریخ پر ایک کے بعد دوسرے مُلک کے خلائی جہاز اُتر رہے ہیں۔ 

اُدھر، میڈیکل سائنس میں پہلی مرتبہ ایک جانور کا دل انسان کو لگایا گیا، گو کہ کئی حوالوں سے یہ عمل متنازع بھی رہا۔ بظاہر یوں لگتا ہے، جیسے یہ غیر معمولی سائنسی اقدامات کسی ایک مُلک کی کاوش ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ دراصل،تمام ترقّی یافتہ ممالک مل کر اس کام میں حصّہ لے رہے ہیں اور ان سے حاصل فوائد میں بھی سب شریک ہیں۔ دُور سے بیٹھ کر لگتا ہے کہ یہ ممالک اربوں ڈالرز بے مقصد کاموں میں ضایع کر رہے ہیں اور اگر یہی سرمایہ دنیا سے بھوک یا غربت ختم کرنے پر خرچ کیا جاتا، تو بہتر ہوتا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقّی دنیا کو کئی طرح سے فائدے پہنچاتی ہے۔ 

وہ مشکلات، جن پر قابو پانے میں برسوں لگ جاتے تھے، اب وہ مسائل مہینوں میں حل ہو رہے ہیں۔سائنسی تجربات اور مہمّات پر جو اخراجات اُٹھتے ہیں،بوقت ضرورت وہ کئی گُنا زاید منافعے کا ذریعہ بنتے ہیں۔اگر میڈیکل سائنس میں مسلسل ریسرچ نہ ہوتی، تو کورونا کا توڑ اِس قدر جلد ممکن نہ ہو پاتا۔اِسی طرح خلا میں جو تجربات ہو رہے ہیں یا مشن بھیجے جاتے ہیں، وہ موسمیاتی تبدیلیوں سمیت دنیا کو درپیش مختلف خطرات سے نمٹنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

گویا ،یہ تجربات ہماری دنیا کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ہم شاید اِس لیے بھی یہ بات ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتے کہ ہم معاشی مشکلات، غربت، جہالت اور سیاسی چکر بازیوں ہی میں اُلجھے ہوئے ہیں،تو کسی اور طرف ہمارا دھیان جاتا ہی نہیں۔معاشی طور پر مستحکم ہونے کے بعد ہی وہ لیڈرشپ سامنے آئے گی، جسے اندازہ ہوگا کہ موبائل فونز بنانے، کرپشن اور احتساب کے نعروں کے علاوہ بھی دنیا ہے۔

اِس امر کا ادراک بے حد ضروری ہے کہ آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے، جو اب بہت آگے جا چُکی ہے۔ٹیکنالوجی نے دنیا کی سیاست تقریباً بدل کر رکھ دی ہے اور ابھی تو یہ شروعات ہے کہ بہت کچھ سامنے آنے کو تیار ہے۔اصل تبدیلی تو یہی ہے، جو دنیا میں دیکھی جا رہی ہے۔

گزشتہ سال ایک اسپیس کرافٹ ہمارے سولر سسٹم کے محور ،یعنی سورج کے بیرونی حصّوں تک جا پہنچا۔ وہ اس کے بیرونی ماحول سے کام یابی سے گزرا اور اب اپنے سفر کے نتائج ڈیٹا کی شکل میں زمین پر بھیج رہا ہے۔یہ اسپیس کرافٹ جسے’’ پارکر سولر پروب‘‘ کا نام دیا گیا، گزشتہ سال28 اپریل کو سورج کی بیرونی فضا میں، جسے’’ کورونا‘‘ کہتے ہیں، داخل ہوا۔ اسے امریکی خلائی ادارے، ناسا نے تیار کر کے لانچ کیا۔ 

یہ تین بار سورج کے مخصوص علاقے سے گزرا اور بہت سا ڈیٹا اپنے ارتھ اسٹیشن تک بھیجا۔پارکر کی سب کی بڑی کام یابی یہ ہے کہ اُس نے سورج کی غیر معمولی حدّت اور تاب کاری برداشت کی۔وہ کام کرتا رہا اور وہ معلومات زمین تک پہنچائیں، جن کا تاریخ میں اب تک کوئی ریکارڈ نہیں۔ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جیسے چاند پر اُترنے کی وجہ سے اُنہیں یہ معلوم ہوا کہ یہ سیّارہ کیسے بنا اور اُس کا زمین سے کیا تعلق ہے، اسی طرح اب سورج تک رسائی ممکن ہوگی اور اس عظیم ستارے کے ہمارے نظامِ شمسی پر اثرات سمجھنے میں مدد ملے گی۔

سولر پارکر، ناسا کا اب تک کا سب سے اہم مشن ہے، اسے تین سال قبل2018 ء میں لانچ کیا گیا تھا۔اس کا مقصد سورج کے قریب ترین حصّوں سے گزرنا، ڈیٹا جمع کرنا اور زمین تک بھیجنا ہے۔ پارکر اسپیس کرافٹ کی رفتار 320000 میل فی گھنٹہ ہے اور یہ وہ رفتار ہے، جو اب تک کسی بھی حرکت کرنے والی چیز کو حاصل نہیں ہوسکی۔ سائنس دانوں کے مطابق، پارکر نے تین مرتبہ ایلفویئن نامی اُس لکیر کو عبور کیا، جو سورج کی بیرونی فضا، کورونا کی باہری حد ہے۔پارکر نے ہمیں نظر آنے والی سورج کی سطح، فوٹو سفیئر سے ایک کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر اوپر اس لکیر کو محسوس کیا۔ 

سورج کے متعلق کچھ چیزیں اب تک پُراسرار تھیں۔مثال کے طور پر سورج کے علاقے فوٹو سفیئر میں درجۂ حرارت6000 ڈگری سینٹی گریڈ ہے، جب کہ کورونا والے حصّے میں لاکھوں ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، جس چیز نے سائنس دانوں کو عرصے سے تجسّس میں مبتلا کیا ہوا ہے، وہ سولر ونڈز یا سورج سے چلنے والی طوفانی ہوائیں اور جھکڑ ہیں، جو کروڑوں میل دُور ہونے کے باوجود زمین کے درجۂ حرارت اور موسم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔پارکر سے حاصل ہونے والا ڈیٹا ان شمسی طوفانوں کا راز کھولنے میں مدد دے سکتا ہے۔

یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہوگا کہ ان کا موسمیاتی تغیّرات سے براہِ راست تعلق ہے۔ان جھکڑوں کی مقناطیسی قوّت زمین کی میگنیٹک فیلڈ میں ہل چل اور تلاطم برپا کرنے کا سبب بنتی ہے، جس سے مواصلاتی نظام کے درہم برہم ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ سٹیلائیٹس ٹوٹ کر بکھر سکتے ہیں، جب کہ بجلی کے گرڈ اسٹیشنز بھی متاثر ہوتے ہیں۔سائنس دان اب تک پرانے ڈیٹا سے ان شمسی طوفانوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے ہیں، لیکن اب پارکر کے ذریعے سورج کے جھکڑوں کے براہِ راست مشاہدے اور جدید ڈیٹا کی روشنی میں زیادہ بہتر پیش گوئیاں کی جاسکیں گی۔

اسپیس سائنس کا ایک اور تاریخی کارنامہ اپنی نوعیت کی واحد اور جدید ترین دُوربین کی لانچنگ بھی ہے۔ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ پر دس ارب ڈالرز کی لاگت آئی، یہ ناسا، کینیڈا اور یورپین اسپیس ایجینسیز کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے، اس پراجیکٹ میں دنیا بھر سے ہزاروں لوگوں نے حصّہ ڈالا۔25 دسمبر 2021 ء کو لانچ ہونے والی یہ ٹیلی اسکوپ اپنی پیش رو، ہبل سے ایک سو گُنا زیادہ طاقت وَر ہے۔اسے آریانا راکٹ کے ذریعے فرانسیسی جزیرے سے خلا میں بھیجا گیا۔ جیمز ویب اُن سائنس دانوں میں نمایاں تھے، جنہوں نے اپالو سیریز کے اسپیس کرافٹ بنائے، جو بالآخر انسان کو چاند پر لے کر اُترے۔ لانچ کے نصف گھنٹے میں جیمز ویب خلا میں مقرّرہ مقام پر پہنچ گئی۔یہ دُوربین اور رصد گاہ ٹینس کورٹ کے برابر ہے۔

اسے تیس سال میں مکمل کیا گیا۔5 جنوری کو اس کی سن شیلڈ کھول دی گئی اور اس نے اپنا کام شروع کردیا۔کائنات میں موجود ستارے اور سیّارے اس کی رینج میں نظر آنے لگے اور اس نے ان کا مشاہدہ شروع کردیا۔ یہ ہبل ٹیلی اسکوپ کی جانشین ہے، جو 31 سال پہلے خلا میں بھیجی گئی تھی۔جیمز ویب کام تو وہی کرے گی، جو اس کی پیش رَو نے کیا، لیکن اس میں نصب آلات اگلی جنریشن کے مطابق ہیں، اس لیے یہ خلا کے رازوں کو زیادہ قریب سے اور بہتر انداز میں منکشف کر سکے گی۔

سائنس دان توقّع کر رہے ہیں کہ یہ ان ستاروں تک بھی پہنچ سکے گی، جو13 ارب سال قبل بِگ بینگ کے وقت وجود میں آئے تھے۔اس طرح وقت اور کائنات میں ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق انسان زیادہ بہتر اور واضح تصویر دیکھ پائے گا۔زمین پر اس کے کنٹرولر، امریکی شہر، میری لینڈ بالٹی مور کی اسپیس لیب میں موجود رہیں گے۔جیمز ویب کی زندگی دس سال ہے اور یہ زمین سے پندرہ لاکھ میل دُور اپنا کام انجام دے گی۔ اِس سے پہلے امریکا، چین، بھارت اور یورپی یونین ایک اور سیّارے، مریخ پر اپنا خلائی جہاز بھیجنے میں کام یاب رہے۔چین، امریکا اور روس کی طرح اپنا خلائی اسٹیشن بھی قائم کر چُکا ہے۔میڈیکل سائنس ایک قدم آگے بڑھ کر دل کی پیوند کاری میں پیش رفت کر چُکی ہے۔

اگر سائنس دانوں کے اِن کارناموں پر غور کیا جائے، تو لگتا ہے کہ سائنس فِکشن حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے۔ ترقّی یافتہ دنیا میں یہ سوال عام ہے کہ’’ کیا انسان چاند پر آباد ہونے کا خواب پورا کر لے گا؟‘‘ بلکہ اب تو بات ایک دوسرے سیّارے، زہرہ تک پہنچ گئی ہے۔بات صرف اِتنی سی نہیں کہ سائنس ایک کے بعد دوسرا سنگِ میل عبور کر رہی ہے، بلکہ اصل سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ کبھی صرف تصوّرات میں تھا، جنھیں خواب سمجھا جاتا تھا، بچّوں کو جو جادوئی کہانیاں سُنائی جاتی تھیں،وہ باتیں اب سائنسی ترقّی کی صُورت سامنے آ رہی ہیں۔قدرت نے انسان کو جو عقل دی ہے، وہ اُسے اِس طرح استعمال کر رہا ہے کہ ایک نئی دنیا وجود میں آچُکی ہے۔

ستاروں پر کمند ڈالنے کی بات اب اشعار سے نکل کر ٹھوس حقیقت بن چُکی ہے۔جب گلیلیو نے اِس حقیقت سے پردہ اُٹھایا کہ نظامِ شمسی، یعنی سولر سسٹم کا مرکز سورج ہے اور سیّارے اُس کے گرد گھومتے ہیں، تو اُس کی بات تسلیم نہیں کی گئی، لیکن نیوٹن نے کششِ ثقل کے اصول سے اُس کی توجیہہ پیش کردی، پھر آئن اسٹائن نے اصول E=MC2 سے اُس پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ہر نئے اصول کی آمد اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ٹیکنالوجی نے دنیا کو بدل ڈالا۔ فلسفی اور سائنس دان اِس امر پر متفّق ہیں کہ گزشتہ ایک سو برسوں میں جتنی تبدیلیاں آئیں یا ایجادات ہوئیں، اس سے پہلے کی ہزاروں سالہ تاریخ میں ایسا نہیں ہوا۔ 

لیکن یہ تبدیلیاں صرف سائنس اور ٹیکنالوجی تک محدود نہیں رہیں، اس نے دنیا کی ہیئت ہی بدل ڈالی۔ٹیلی ویژن، مواصلاتی سیّارے، انٹرنیٹ نے رابطوں کی ایک نئی دنیا ترتیب دی، جس کے وسیع تر اثرات سماجی معاملات اور سیاست پر بھی مرتّب ہوئے۔ اب دنیا ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہے۔ کسی ایک واقعے کے اثرات پَل بَھر میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتے ہیں۔ کسی ایک مُلک میں بھوک، جہالت اور انسانی حقوق کے معاملات ساری دنیا میں زیرِ بحث آجاتے ہیں۔ اِسی لیے لگتا ہے کہ ہر مُلک دوسرے مُلک اور علاقے کے معاملات میں نہ صرف دِل چسپی لے رہا ہے، بلکہ کسی نہ کسی انداز میں دخل اندازی بھی کر رہا ہے۔

اپنے اردگر رُونما ہونے والے واقعات پر نظر دوڑائیں، تو بہت سی مثالیں نظر آجائیں گی۔اِسی لیے اگر افغانستان میں معاشی حالات دگرگوں ہیں، تو یہ صرف اُس مُلک یا علاقے کا مسئلہ نہیں، بلکہ عالمی المیہ کہلانے لگا ہے۔اگر پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ کا اندیشہ ہو، تو ساری دنیا کو تشویش ہوتی ہے۔ چین نے معاشی ترقّی کی، جس کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں، حالاں کہ اس سے پہلے ایسی ہی غیر معمولی ترقّی جاپان نے بھی کی تھی، لیکن اُس کے عالم گیر اثرات مرتّب نہیں ہوئے تھے۔ آج دنیا بھر میں چین کے مال کا چرچا ہے، لیکن یہ یک طرفہ نہیں ہے، چین کی ترقّی نے اپنے ساتھ بہت سے مُلکوں کو بھی ترقّی کے ثمرات میں شریک کیا ہے۔

لہٰذا، اس پس منظر میں اصل بات یہ ہے کہ جو مُمالک اب تک اپنی پالیسیز خوابوں میں رہ کر بناتے چلے آئے ہیں، اُنھیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقّی کا ذکر محض بیانات تک محدود رکھنے کی بجائے عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا، وگرنہ دنیا تو قیامت کی چال چل رہی ہے،تو وہ کہیں اِتنے پیچھے نہ رہ جائیں کہ پھر مداوا بھی ممکن نہ رہے۔چھوٹے چھوٹے مُلک ترقّی یافتہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں، لیکن جو قومیں اپنے خود ساختہ نظریات اور تصوّرات میں گم ہیں، اُنہیں یہ سب تبدیلیاں عجیب لگ رہی ہیں اور اپنے خلاف بھی، لیکن اُنھیں یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ کے خلاف جنگ لڑنا ممکن نہیں کہ کسی مُلک سے تو جنگ جیتی جاسکتی ہے، تاریخ سے نہیں۔