وزیراعظم عمران خان نے چین کے چار روزہ دورے کے آخری دن اتوار کو صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی جس کے بعد جاری کئے گئے 33نکاتی مشترکہ اعلامیے میں پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط دفاعی اور سیکورٹی تعاون کو خطے کے امن و استحکام کے لیے بجا طور پر ایک اہم عنصر قرار دیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق امور پر اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے تجارت، انفرا سٹرکچر، صنعتی شعبوں میں ترقی، جدید زراعت، سائنسی اور تکنیکی تعاون اور مقامی لوگوں کی سماجی و اقتصادی بہبود سمیت تمام شعبوں میں تعاون کو مستحکم بنانے کیلئے سی پیک کی مشترکہ تعاون کمیٹی کو ذمے داری سونپنے پر اتفاق کیا ہے نیز افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کی جانب سے فوری اقدامات پر بھی زور دیا ہے۔ اعلامیے میں چین کی جانب سے پاکستان کی خود مختاری و سلامتی کے تحفظ اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے جبکہ پاکستان نے ون چائنا پالیسی کیلئے اپنی وابستگی اور حمایت کا اظہار اور تائیوان، جنوبی بحیرہ چین، ہانگ کانگ، سنکیانگ اور تبت کے معاملے پر چین کیلئے اپنی حمایت کو دہرایا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیراطلاعات فواد چوہدری کے مطابق دورہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا ہے، ان تفصیلات سے واضح ہے کہ وزیراعظم کا دورہ چین دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا کو بہتر بنانے کا ذریعہ بنا ہے جبکہ سی پیک منصوبوں کی رفتار اور سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے پچھلے دنوں چینی قیادت کے عدم اطمینان کا تاثر عام تھا۔ تاہم اب باہمی اعتماد کے ماحول کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہوگا کہ سی پیک منصوبوں پر کام میں سست روی کا تاثر مؤثر عملی اقدامات سے دور کیا جائے اور ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر سی پیک منصوبوں پر کام کرنیوالے چینی اورپاکستانی عملے کی بےخطا حفاظت کا یقینی بندوبست کیا جائے۔