• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رائٹ ٹوُ انفارمیشن ایکٹ کی مدد سے غریبوں کی مدد کرنے والا مسیحا

اسلام آباد (عمر چیمہ) نعیم صادق ایسے شخص ہیں جو غریبوں کیلئے دل میں درد رکھتے ہیں۔ جس وقت سیاست دان اور ٹی وی پر بیٹھے تجزیہ نگار غریبوں کیلئے باتیں تو کرتے ہیں لیکن کرتے کچھ نہیں، اس وقت نعیم صادق غریبوں سے بات چیت کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کس طرح گزارتے ہیں۔ 

کم آمدنی والے لوگ نعیم صادق کی دلچسپی کا مرکز ہیں اور انہیں ایسے لوگوں کی فکر لگی رہتی ہے کہ ایسے لوگوں کو کم از کم مقررہ قانونی اجرت ملتی ہے یا نہیں۔ 

پیشہ کے لحاظ سے کراچی سے تعلق رکھنے والے نعیم صادق ایک مینجمنٹ کنسلٹنٹ ہیں، مختلف سرکاری دفاتر میں جا کر وہ صفائی ستھرائی پر مامور ملازمین اور سیکورٹی گارڈز سے بات چیت کرتے ہیں اور اس کے بعد نعیم صادق رائٹ ٹوُ انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی) کا سہارا لیکر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی کنٹریکٹ میں ان ملازمین سے تنخواہ کی مد میں وعدہ کیا گیا ہے وہ انہیں دیا جاتا ہے یا نہیں اور اگر نہیں دیا جاتا تو کیوں نہیں۔

 اس تن تنہا شخص کی کوششوں کی وجہ سے تقریباً 45؍ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں ملازمین کو قانونی اجرت ملنا شروع ہو گئی ہے۔ 

ان کا اگلا ہدف ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کا ادارہ تھا۔ 

انہوں نے گزشتہ سال ادارے کا دورہ کیا اور یہاں جا کر انہیں معلوم ہوا کہ ایک ایسے ادارے میں کم از کم اجرت 15 سے 18؍ ہزار مقرر ہے جس کا کام ملازمین کی رجسٹریشن کرکے ان کے پنشن کے حقوق کا دفاع کرنا اور پنشن فنڈ کی مد میں رقم جمع کرانے کیلئے نجی اور سرکاری شعبے کو ہدایت ہے۔ 

حکومت کی جانب سے کم از کم مقرر کردہ قانونی اجرت 25؍ ہزار روپے ہے لیکن شاید ہی اس پر عمل ہوا ہو۔ 

اس صورتحال سے پریشان، نعیم نے ای او بی آئی کے سربراہ کی مراعات اور سہولتوں کا پتہ لگانے کی ٹھانی۔

 انہوں نے معلومات کے حصول کیلئے درخواست دائر کی جس پر ایک سال بعد جواب آیا اور پاکستان انفارمیشن کمیشن کی ہدایات پر ہی انہیں یہ جواب ملا۔

 معلومات سامنے آئی تو پتہ چلا کہ ادارے کے اعلیٰ افسران اور ملازمین دو مختلف دنیائوں کے باسی ہیں۔

 2019ء سے دو سال کے اعداد و شمار دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ای او بی آئی نے چیئرمین کی تنخواہ، میڈیکل اخراجات، کار، ڈرائیور، گھر کے ملازمین، ٹیلی فون، انٹرنیٹ، ٹی اے ڈی اے اور گالف کلب کی ممبر شپ پر 2؍ کروڑ 83؍ لاکھ روپے خرچ کیے۔ 

اس میں ہائوسنگ الائونس شامل نہیں ہے۔ جس وقت ادارے نے اپنے چیئرمین کو خوش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، اس وقت ستم ظریفی یہ ہے کہ ادارے کو اپنے بنیادی کام کا علم ہی نہیں۔

ادارے کے اپنے 90؍ فیصد ملازمین کی ای او بی آئی کے تحت رجسٹریشن ہی نہیں کی گئی اور انہیں ماہانہ بنیادوں پر صرف ساڑھے 8؍ ہزار روپے پنشن ملتی ہے۔ 

پاکستان کے 50؍ فیصد ملازمین کو ان کی کم از کم قانونی اجرت نہیں ملتی جبکہ 90؍ فیصد افرادی قوت کو بڑھاپے کی عمر کے فوائد (اولڈ ایج بینیفٹس) نہیں ملتے۔ 

ای او بی آئی کے پاس صرف 90 لاکھ ملازمین رجسٹرڈ ہیں (جبکہ مجموعی تعداد اندازاً ساڑھے 7 کروڑ ہے)۔ 

قانون یہ کہتا ہے کہ آجروں کو پانچ فیصد ادائیگی کرنا ہوتی ہے جبکہ ایک فیصد ادائیگی ملازمین کی تنخواہ سے منہا کی جاتی ہے اور اسے ای او بی آئی کے اکائونٹس میں جمع کیا جاتا ہے تاکہ ساٹھ سال پر ریٹائرمنٹ کے وقت ملازمین کو پنشن مل سکے۔ لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی نظر آتے ہیں۔

 بیشتر آجر تھرڈ پارٹی کمپنیوں کے ذریعے ملازمین بھرتی کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو جاتے ہیں۔

 یہ آجر اس بات کو یقینی نہیں بناتے کہ تھرڈ پارٹی اپنی ذمہ داری پوری کرتی ہے یا نہیں۔

 نعیم صادق نے سوال اٹھایا ہے کہ ای او بی آئی نے کم از کم اجرت کے حوالے سے کوئی اشتہار شایع کیوں نہیں کرایا اور آجر اس کم از کم اجرت کا 5؍ فیصد ماہانہ کیوں ادا نہیں کرتے۔

 اگر ای او بی آئی یہ کام کرے تو انقلاب برپا ہو سکتا ہے، ای او بی آئی کا کام تمام ملازمین کے حقوق کا دفاع کرنا ہے، بشمول کم اجرت والے ملازمین۔  فی الوقت، ای او بی آئی کے سربراہ کے عہدے پر گزشتہ دو ماہ سے کوئی موجود نہیں جبکہ ادارے میں کوئی ترجمان بھی نہیں۔

 اسی لیے دی نیوز نے ای او بی آئی کے ایک عہدیدار سے بات چیت کی تاکہ ادارے کا موقف معلوم کیا جا سکے۔ انہوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ ادارے میں ایک لاکھ 40؍ ہزار 517؍ ملازمین رجسٹرڈ ہیں۔

 اُن میں سے 92؍ ہزار 629؍ فعال، 43؍ ہزار 834؍ بند کیسز جبکہ 4044؍ کی رجسٹریشن ختم ہو چکی ہے۔ ای او بی آئی فعال ملازمین کے فنڈز جمع کرتی ہے جس میں سے 5؍ فیصد آجر ادا کرتا ہے جبکہ ایک فیصد ملازم کی تنخواہ سے وصول کیے جاتے ہیں۔ تاہم، یہ کٹوتی تنخواہ سے منہا کی جاتی ہے چاہے ملازمین کو کم از کم قانونی اجرت دی جا رہی ہو یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک کم از کم اجرت کی ادائیگی کو یقینی بنانا ای او بی کی ذمہ داری ہے۔

 یہ ذمہ داری متعلقہ ڈویژن کے کمشنر کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ملازمین کو کم از کم قانونی اجرت کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ ای او بی آئی کی جانب سے تعینات کیے گئے سیکورٹی گارڈز کو کم از کم اجرت نہیں دی جا رہی تو انہوں نے کہا کہ یہ ای او بی آئی کا کام نہیں، ان ملازمین کو تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر کے ذریعے تنخواہ ملتی ہے۔

 جہاں تک رجسٹرڈ افرادی قوت کا تعلق ہے تو رواں سال مئی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد بڑھ کر 98؍ لاکھ ہوگئی ہے۔ ای او بی آئی کے علاوہ، اب نعیم صادق کی نظر پاکستان پوسٹ، اسٹیٹ لائف انشورنس اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز جیسے اداروں پر مرکوز ہے جہاں انہوں نے پہلے ہی کم از کم قانونی اجرت پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے کنٹونمنٹ بورڈز اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ذریعے یہ مقاصد حاصل کیے ہیں۔ 

یہاں بھی انہوں نے آر ٹی آئی کا سہارا لیا، معلومات حاصل کیں اور اداروں سے ٹکر لی تاکہ یہ جان سکیں کہ کیوں یہ ادارے صاف صفائی کے کام پر مامور ملازمین اور سیکورٹی گارڈز کو کم از کم قانونی اجرت کی ادائیگی نہیں کرتے۔

 نیشنل سیونگ کے محکمے نے یقین دلایا ہے کہ وہ اجرت کے قانون پر عمل کو یقینی بنائے گا۔ نعیم صادق تنخواہوں میں پائی جانے والی عدم مساوات کے بھی ناقد ہیں۔

اہم خبریں سے مزید