• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب ترامیم خلافِ آئین ہونے پر حکومت سے جواب طلب

فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم خلاف آئین ہونے پر حکومت سے جواب مانگ لیا، وفاقی حکومت اور نیب کو نوٹسز جاری کر دیے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین میں کسی بھی شخص کا وقار ایبسلیوٹ ہے، ان تمام سوالات کی بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے تھی، میری ذاتی رائے ہے کہ یہ معاملہ واپس پارلیمنٹ کو جائے گا، اس قانون پر اسٹے نہیں دے سکتے۔

نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کا ملزمان کو فائدہ پہنچانے کو عدالتی فیصلے سے مشروط کرنے کی استدعا کر دی جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن کی جانب سے پی ٹی آئی کی استدعا کی مخالفت کی گئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ریلیف عدالتی فیصلے سے مشروط ہو تو حکومت کو کیا مسئلہ ہے؟

پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کئی مقدمات میں ٹرائل کورٹس میں ریلیف کی درخواستیں آ چکی ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ترامیم کالعدم ہوئیں تو ملنے والا فائدہ واپس ہو جائے گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فائدہ ملنے کے بعد واپس ہونے سے قانونی چارہ جوئی شروع ہو جائے گی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ترامیم چیلنج ہو چکی ہیں، مناسب ہوگا کہ پہلے ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب عدالت میں زیرِ التواء کیسز کو موجودہ کیس کے فیصلے سے مشروط کر دیتے ہیں۔

اس موقع پر عدالت نے کیس کی سماعت 29 جولائی دن 11 بجے تک کے لیے ملتوی کردی، سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

اس سے قبل دورانِ سماعت سربراہ پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث صاحب، آپ نے درخواست پر بڑی محنت کی ہے، وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ محنت تو انہوں نے بھی بڑی کی ہے جنہوں نے ترامیم کیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ وزیرِ قانون کا کہنا ہے کہ نیب قانون کی ہر ترمیم کی سپورٹ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، کیا ایسا ہی ہے؟

جواب میں وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہے، ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم تو ہیں لیکن ان کے مطابق نہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ بہت سی ترامیم کو جلد بازی میں منظور کیا گیا ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا یہ قانون سازوں کا کام نہیں تھا کہ نیب قانون بنائے جائیں؟ عدالتوں نے متعدد بار کہا کہ نیب قوانین بنائے جائیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون میں موجودہ ترامیم کر کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے، پارلیمان کل قرار دے کہ قتل جرم نہیں ہے تو کیا ایسا ہونے دیا جائے؟

جسٹس منصور نے اس پر کہا کہ اگر پارلیمنٹ قتل کے جرم پر سزائے موت ختم کر دے تو عدالت کیا کر سکتی ہے؟ کیا عدالت پارلیمنٹ کو کہہ سکتی ہے کہ سزائے موت ختم نہ کی جائے؟

جسٹس اعجازالااحسن نے ریمارکس میں کہا کہ 2022ء کی نیب ترامیم کو 1985ء سے مؤثر کیا گیا، 2022ء کی ترامیم کو ماضی سے مؤثر کرنے سے پرانے کیسز پر فرق پڑے گا۔

پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سزائے موت ختم کرنے کا معاملہ مختلف ہے، جہاں کرپشن اور قومی خزانے کا معاملہ ہو وہاں بات بنیادی حقوق کی آتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ نیب قانون کا تعلق صرف پبلک آفس ہولڈرز سے نہیں ہے، سرکار کا کام آگے بڑھنا چاہیے، نیب کے قانون نے بہت سے معاملات میں رکاوٹ بھی پیدا کی ہے، خاص طور پر بیوروکریسی پر نیب قانون کا بڑا اثر پڑا ہے، مخصوص فرد کے لیے بنے قانون کو عدالت کالعدم کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ فیصلہ ساز ملکی مفاد کے فیصلوں سے اس لیے ڈرتے تھے کہ نیب نہ پکڑ لے، نیب قانون نے ہمیں پیچھے بھی دھکیلا ہے، یہی وقت ہے کہ ہم ان سب قوانین کو بغور دیکھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں مخصوص افراد کیلئے ہوئی قانون سازی عدالت کالعدم قرار دے چکی ہے، کرپشن کرنے والے کو سزا ہونی چاہیے نا کہ اس کا کیا گیا ضروری فیصلہ ہی واپس ہو جائے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ کیا نیب نے آج تک ملکی ترقی میں کردار ادا کیا ہے یا فیصلہ سازی کو روکا ہے؟ اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال ہوتا ہے یا نہیں، ہر حکومت اپنی اپوزیشن کے خلاف نیب کو استعمال کرتی ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت اعتماد کی بنیاد پر ہے، اگر فیصلہ ساز عوام کا اعتماد توڑیں تو ان سے سوال کا حق ہونا چاہیے، ایسے تو پبلک آفس ہولڈر کہے گا کہ میں جیسے چاہوں حکومت چلاؤں کسی کو جوابدہ نہیں، آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف قانون سازی بھی کالعدم ہو جاتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آئینِ پاکستان میں کسی بھی شخص کا وقار ایبسلوٹ ہے، آپ کو ایک چھوٹی سی بات بتائیں، ان تمام سوالات کی بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے تھی، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان تمام سوالات پر پارلیمنٹ میں بحث ہوئی تھی؟

دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے شاہ محمود قریشی کو روسٹرم پر بلالیا اور ان سے مکالمہ کیا کہ پارلیمنٹ فعال ہے، جب نیب ترامیم پیش ہوئیں تو ان کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں تھا، جب حساس معاملات پر پارلیمنٹ میں بحث ہوتی ہے تو اس میں تمام اراکین کا ہونا لازم ہے، آپ کہاں تھے جب نیب قانون پاس ہو رہا تھا؟ پارلیمنٹ فنکشن کرے گی تو ملک چلے گا۔

شاہ محمود قریشی نے جواب میں کہا کہ عدالت کے کردار کو سمجھتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمارے سوال کا جواب دیں، جب ایسے کیسز لگتے ہیں تو عام آدمی کے کیسز متاثر ہوتے ہیں، پارلیمنٹ میں آپ کی جماعت کی کتنی تعداد ہے؟ قانون سازی کے وقت آپ کیوں موجود نہیں تھے؟ آپ کے پاس لوگوں کا اعتماد ہے، اس ملک، قوم اور آئین کے بارے میں سوچیں۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کے وکیل نے بڑے اچھے نکات اٹھائے ہیں، ہم ان نکات پر فریقین کو نوٹس جاری کریں گے، آپ آئندہ سماعت پر تیاری کر کے آئیں۔

جسٹس اعجازالااحسن نے کہا کہ عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے یہ بات پارلیمنٹ میں اٹھائیں، اگر پارلیمان میں بحث ہوتی تو عدالت کو کئی گھنٹے سماعت نہ کرنی پڑتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت بہت سوچ سمجھ کر ہی کی جا سکتی ہے، حال ہی میں ہم نے ایک ادنیٰ سا حکم نامہ لکھا ہے، وقت ہو تو اس کو پڑھیے گا۔

جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف آپ نے پارلیمنٹ میں 40 فیصد عوام کی نمائندگی کیوں نہیں کی؟

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ عوام نے بطور ممبر اسمبلی آپ پر جو اعتماد کیا تھا وہ پورا نہیں ہو رہا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کئی گھنٹے تک پارلیمان کی کمیٹی میں نیب ترامیم پر بات ہوئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آپ شاید عدم اعتماد سے پہلے کی بات کر رہے ہیں۔

جسٹس منصور نے کہا کہ آپ نیب ترامیم کی سنجیدگی سے واقف تھے پھر بھی آپ نے اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ حکومتی بینچز نے کثرتِ رائے سے یہ ترامیم بلڈوز کیں۔

جسٹس منصور نے کہا کہ آپ واک آؤٹ کر گئے، کیا اس صورتِ حال میں درخواست گزار کا حقِ دعویٰ بنتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی کبھی مفادِ عامہ اور ملک کی خاطر ذاتی ترجیحات پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، کیا آپ کی جماعت نے ایسا لائحہ عمل بنایا کہ ملک کو مشکل حالات سے نکالا جا سکے؟

جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی کا فورم تھا، وہاں سے نکل کر عدالت آنے سے آپ متاثرہ فریق کیسے ہوئے؟

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ن لیگ کے پاس اکثریت تھی، مخالفت کرتے بھی تو قانون بلڈوز کر دیا جاتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سوالات میں ایک تجویز چھپی ہوئی ہے، اس پر عوام کی خاطر غور کریں، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، پارلیمان کا کوئی متبادل فورم نہیں ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول پر معاہدہ تو ہو گیا لیکن اسے پبلک میں تسلیم نہیں کیا جا رہا، کرنسی روز بروز ڈگمگا رہی ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ لوگوں کا حق ہے کہ ان کے نمائندے اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں، اختیارات کا غلط استعمال اب جرم تو ہے لیکن اسے ثابت کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے، احتساب عدالتیں اب بیرونِ ملک سے آنے والی معلومات بطور شواہد قبول نہیں کر سکتیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بات صرف یہاں نہیں رکتی، پیسہ بیرونِ ملک منتقلی بھی جرم نہیں رہا، منتقل شدہ پیسے سے اثاثے بنانا ثابت کرنے پر ہی جرم ہوگا۔

وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ نئی ترامیم کے ساتھ جعلی اکاؤنٹس کے تمام کیسز ختم ہوجائیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ان نکات پر فریقین کو نوٹس جاری کرنا بنتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ صرف صدر نے ترامیم پر مزاحمت کی تھی، انہوں نے مزاحمت قانون کی منظوری نہ دے کر کی تھی۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نیب ترامیم خلافِ آئین ہونے پر حکومت سے جواب مانگ لیا، وفاقی حکومت اور نیب کو نوٹسز جاری کر دیے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ رکنِ قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی کی معاونت کو سراہتے ہیں، کیس کے فریقین بتائیں کہ نیب ترامیم پربحث پارلیمنٹ کے بجائے عدالت میں کیوں ہو؟

قومی خبریں سے مزید