• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبائی اسمبلیوں سے ’’نکلنے کا اعلان‘‘ پارلیمانی نظام سے انحراف کے مترادف

اسلام آباد(فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صوبائی اسمبلیوں سے بھی نکلنے کا فیصلہ اور اعلان کر کے صرف حکومت کو ہی نہیں بلکہ اپنے قریبی رفقا اور حلیفوں کو حیران کرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں میں شامل اپنے ارکان کو بھی خاصی حد تک پریشان کر دیا ہے۔

راولپنڈی کے اجتماع میں ان کے ساتھ سٹیج پر موجود پاکستان تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی ،پرویزخٹک اور دیگر معتمدین کیلئے یہ اعلان قطعی طور پر سرپرائز تھا بالکل اسی طرح جیسے 2012 میں اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنے کے دوران انہوں نے شادی کرنے کا اعلان کرکے سب کو سپرپرائز دیا تھا۔

 لیکن سیاسی معاملوں اور اہم فیصلوں میں اگرعمران خان اپنے رفقا کو قبل ازوقت اعتماد میں نہیں لیتے تو اس کا جواز بھی موجود ہے کیونکہ بعض واقعاتی شہادتوں کے بعد ان کا یہ شک یقین میں بدل چکا ہے کہ رفقا سے کئے جانے والے اہم فیصلوں پر مشاورت یا انہیں پیشگی طور پر اعتماد میں لینے سے ان کے افشا ہونے سے انہیں سیاسی طور پر جو نقصان ہوا ہے وہ ان کے بعض قریبی ساتھیوں پر اعتماد کا ہی شاخسانہ تھا اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے ساتھیوں سے ایک مشاورتی اجلاس میں اعلانیہ بھی کیا تھا۔

گوکہ سیاسی اور حکومتی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا واقعتاً فیصلہ ہی ہے یا محض ایسا اعلان جس پر اول تو فیصلہ ہوگا نہیں اور اگر یہ ہو گا تو کتنے عرصے میں ہوگا اور کیا یہ بھی اپنے حامیوں کو ساتھ رکھنے کیلئے تجسس اور تذبذب میں مبتلا رکھنے کا ایک سیاسی حربہ ہے .

بہرحال اس بحث سے قطع نظر یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بھی اپنے اس فیصلے پر اپنی قیادت کے ساتھ ایک پیج پر ہیں اور یہ سوال بہت اہم ہے اس کیلئے رواں سال اپریل میں عمران خان کے اس فیصلے کی طرف جانا ہوگا جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں حکومت سے رخصتی کے بعد سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان نے قومی اسمبلی کے ایوان میں اپوزیشن کا پارلیمانی کردار ادا کرنے کے بجائے اپنے تمام ارکان کو قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کا حکم صادر کر دیا۔

گو کہ پاکستان تحریک انصاف کے وہ ارکان جواپنے بھرپور وسائل کو بروئے کار لاکر اور مشکلات کا سامنا کر کے سیاست میں آنے کے بعدپہلی بار ایوان میں آئے تھے اور اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز کر رہے تھے ان کیلئے یہ فیصلہ تسلیم کرنا ایک انتہائی دشوار مرحلہ تھا۔ پھر دیگر سینئر ارکان بھی اس فیصلے سے خوش نہیں تھے لیکن وہ اپنی مایوسی کا اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے اس لئے نہ چاہنے کے باوجود انہیں یہ فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔

 اس وقت قومی اسمبلی کے ایوان میں تحریک انصاف سے وابستگی رکھنے والے ارکان کی مجموعی تعداد123تھی جن میں94ارکان باقاعدہ الیکشن جیت کر آئے تھے باقی خواتین کی مخصوص نشستوں اور اقلیتی ارکان بھی شامل تھے۔

اہم خبریں سے مزید