• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وجیہہ ناز سُہروردی
وجیہہ ناز سُہروردی | 31 جنوری ، 2024

1970 سے 2018 تک پاکستانی عوام سے کون کون سے وعدے کیے گئے؟

انتخابی منشور سیاسی رہنماؤں کے عوام سے کیے گئے وعدوں کی دستاویز ہوتی ہے جو ووٹرز کو یہ جاننے میں مدد دیتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی نظر میں کون سے عوامی مسائل اہمیت کے حامل ہیں۔

ملکی تاریخ میں 1970ء کے الیکشن پہلے باضابطہ عام انتخابات تھے، آئیے ایک نظر 1970ء سے 2018ء تک ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور پر ڈال لیتے ہیں۔


الیکشن 1970ء

پیپلز پارٹی کا منشور (روٹی، کپڑا اور مکان، مانگ رہا ہے ہر انسان)

1970 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور آج تک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے ’روٹی، کپڑا اور مکان، مانگ رہا ہے ہر انسان‘ کے عنوان سے طویل اور مربوط منشور دیا تھا۔


الیکشن 1977ء

پیپلز پارٹی نے پرانے منشور کو نئے انداز میں پیش کیا

پاکستان پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ وہ اپنی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر 1977ء کے انتخابات میں کامیاب ہو جائے گی، اس لیے اس نے اپنے پرانے منشور کو نئے انداز میں پیش کیا اور اس کے ساتھ ہی الیکشن مہم میں مختلف اداروں کی نیشنلائزشین، زرعی شعبہ جات اور مز دوروں کے لیے اصلاحات، بھارت سے پاکستان کے ایک لاکھ قیدیوں کی رہائی، لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرنے اور مسلمان ممالک کے ساتھ بہتر روابط کا نعرہ لگایا۔

حزبِ اختلاف کے اتحاد کا منشور پیپلز پارٹی کی حکومت پر شدید تنقید کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

حزبِ اختلاف کی 9 جماعتوں کے اتحاد پاکستان جمہوری اتحاد اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد نتائج کو رد کیا اور بھٹو کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ 

دونوں پارٹیوں میں کشیدگی بڑھی تو 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے آئین معطل کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا۔


الیکشن 1985ء

غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد، ہر فرد کا اپنا نعرہ، اپنا منشور 

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ابتداً جب انتخابات کا اعلان کیا گیا تو مسلم لیگ (ف) نے پی پی پی کے ساتھ مل کر مارشل لاء کے خلاف مہم چلائی اور اقتدار میں آنے کے بعد مارشل لاء کو ہٹانے اور میڈیا کو آزاد کرنے کا وعدہ کیا۔

تاہم جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا تو ان کی زیرِ نگرانی منعقد ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں ہر فرد کا اپنا نعرہ، اپنا منشور تھا۔

ان انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف پنجاب اور غوث علی شاہ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے جبکہ محمد خان جونیجو وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔


الیکشن 1988ء 

پاکستان پیپلز پارٹی  نے ٹریڈ یونینوں کی طاقت کو روکنے کا وعدہ کیا

اس الیکشن میں دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پی پی پی اور 9 جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد کے درمیان اصل مقابلہ تھا۔ ان 9 جماعتوں میں مسلم لیگ بھی شامل تھی۔

مسلم لیگ نے انتخابی مہم کے دوران عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی جماعت ملک و قوم کی ترقی، ملکی معیشت کی بحالی اور اس کے استحکام کے لیے اقدامات کرے گی۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی روٹی، کپڑا اور مکان کے منشور کے ساتھ ملک میں انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے اور اس سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونینوں کی طاقت کو روکنے کا وعدہ کیا تھا۔


الیکشن 1990ء

آئی جے آئی اور پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کیلئے منشور کا اجراء ایک اہم معاملہ

1990 میں 9 جماعتوں کے اتحاد ، آئی جے آئی  اور  پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پیپلز پارٹی کا دیگر جھوٹی جماعتوں سے اتحاد) نے انتخابات میں حصہ لیا۔

دونوں جماعتوں کی جانب سے منشور کا اجراء ایک اہم معاملہ تھا۔

 انتخابی مہم کے دوران 9 جماعتوں کے اتحاد ، آئی جے آئی نے ابتداً معاشی و معاشرتی مسائل کے حل کی بات کی تاہم بعدازاں انہوں نے بھٹو خاندان کی موروثی سیاست کو مرکز بنالیا جبکہ پی ڈی اے انتخابی مہم کے دوران غیر منظم نظر آئی۔ 

دونوں جماعتوں نے عوام کو مہنگائی سے نجات، معاشی و معاشرتی ترقی دلانے کا وعدہ کیا تھا۔

 آئی جے آئی اتحاد نے 1990 کے انتخابات میں فتح حاصل کی اور نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔


الیکشن 1993:

پاکستان پیپلز پارٹی نے سابقہ منشور کیساتھ کرپشن کے بے بنیاد الزامات کے خلاف آواز بلند کی

مسلم لیگ 1993 کے انتخابات سے قبل دو دھڑوں میں ٹوٹ گئی۔ اس طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کا قیام ہوا جسے میاں نواز شریف نے سنبھالا۔

1993 کے انتخابات میں ن لیگ نے ضیاء مشن کے ساتھ ساتھ اپنے منشور میں بنیادی انفرااسٹکچر، ترقیاتی کاموں جس میں سڑکیں، ریل کا نظام، پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر مسائل کو بھی شامل کیا۔ ان کےمنشور میں اسے ڈیموکریٹک گورنس کا نام دیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے روٹی، کپڑا اور مکان کے منشور کو ہی آگے لے کر چلی اور اس کے ساتھ انتخابی مہم میں سابقہ دور حکومت میں لگائے جانے والے کرپشن کے بے بنیاد الزامات کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ 


الیکشن 1997:

 پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے سابقہ منشور کی بنیاد پر ایک بار پھر حکمران جماعت بن گئی

1997 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے سابقہ منشور کی بنیاد پر ایک بار پھر حکمران جماعت بن گئی، مگر اس بار بھی انہیں عوام کی خدمت کا موقع نہ مل سکا اور 1999 میں جنرل مشرف نے حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں جلاوطن کر دیا۔


الیکشن2002:

2002 میں ریفرنڈم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف ملک کے صد بن گئے، انہوں نے اسی سال عام انتخابات کروائے مگر ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سربراہ (چیئرمین) کرپشن کیسز میں جلا وطنی کی سزا کاٹ رہے تھے، دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں نے 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا مگر کوئی بھی جماعت عوام کو خاص متاثر نہ کرسکی، اس طرح ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف کی پارٹی نے ہی اقتدار سنبھالا۔

ان کے دستور میں ملک کے قرضے اُتارنا، ملک میں جمہوری حکومت کا قیام اور ملک کی معیشت کو استحکام دینا تھا۔


الیکشن 2008:

موروثی سیاست کے خلاف پی ٹی آئی کا منشور

ان انتخابات میں پی ٹی آئی ایک مضبوط جماعت کے طور پر میدان میں اتری، اس نے اپنے منشور میں موروثی سیاست کے خلاف نعرہ بلند کیا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ انٹر پارٹی الیکشن، دفاعی بجٹ کا استدلال، اداروں کو مضبوط بنانے، سماجی معاشی ترقی، کشمیر تنازع کا حل اور قومی ہم آہنگی کے لیے اقدام کریں گے، مگر بے نظیر کے قتل کے بعد ملک میں ایمرجنسی کی صورتحال میں شفاف الیکشن نہ ہونے کے خدشے کے باعث پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

پیپلز پارٹی کے منشور میں روٹی، کپڑا، مکان کے علاوہ پانچ E شامل

2008ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ذوالفقا علی بھٹو کے منشور روٹی، کپڑا، مکان مانگ رہا ہے ہر انسان کے ساتھ ساتھ پانچ E یعنی ایمپلائمنٹ، ایجوکیشن، انرجی، انوائرمنٹ اور ایکویٹی کو بھی اپنے منشور میں شامل کیا۔ 

ن لیگ کے پانچ D

ن لیگ نے اپنی انتخابی مہم میں قوم کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نے پانچ D یعنی ڈیموکریسی، ڈیولپمنٹ، ڈیولوشن، ڈائیورسٹی اور ڈیفنس کے حوالے سے کام کریں گے۔


الیکشن 2013:

پی ٹی آئی کا  پرانے منشور کے ساتھ نیا پاکستان کا وعدہ 

2013 ء میں پی ٹی آئی اپنے پرانے منشور کے ساتھ نیا پاکستان، انصاف، امن اور خوشحالی کے کا وعدہ کرتے ہوئے ایک بار پھر میدان میں اتری اور بھاری اکثریت میں ووٹ حاصل کر کے ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر اُبھری اور حزب اختلاف میں جگہ بنالی۔

ن لیگ کا منشور ہم بدلیں گے پاکستان 

عوام نے سابق حکمران جماعت سے ناامید ہو کر 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کو ایک موقع دیا، جو مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان اور ہم بدلیں گے پاکستان کے منشور کے ساتھ انتخابات میں کھڑی ہوئی تھی۔

پیپلز پارٹی کا منشور

روٹی، کپڑا اور مکان کے بنیادی نعرہ میں علم، صحت سب کیلئے عام، دہشت سے محفوظ عوام اورجمہور کا نام کوشامل کیا گیا ہے۔


الیکشن 2018:

پیپلز پارٹی کا منشور

2018 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اپنے دسویں منشور پیش کیا جو کم و بیش پرانے منشور جیسا ہی تھا، انہوں نے ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے، تعلیم و صحت پر خصوصی توجہ دینے، نوجوانوں کو فعال شہری بنانے،  امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے، غذائی مصنوعات اور کاشتکاروں کو سبسڈی دینے، بے نظیر کارڈ، ہیلتھ کارڈ، سستی رہائش، بھوک مٹاؤ پروگرام کا آغاز، ٹیکسٹائل ٹیکس فری اور پانی کے مسائل حل کرنے کے وعدے کئے۔

مسلم لیگ (ن) کا منشور

مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں کراچی کے چار بڑے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کا وعدہ کیا کہ اقتدار میں آتے ہی، سب سے پہلے 6 ماہ میں شہر سے کچرا اُٹھائیں گے، شہریوں کو صاف پانی مہیا کریں گے، ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو حل کرتے ہوئے میٹرو بس اور اورینج ٹرین سروس کا آغاز کریں گے اور شہر کے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنائیں گے۔ اس کے علاوہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں یونیورسٹیاں تعمیر کریں گے اور فنی تعلیم کو فروغ دیں گے، ملازمت کے نئے مواقع فراہم کریں گے، عوام کو صاف شفاف پانی مہیا کریں گے، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، اور سستا گھر اسکیم بھی ان کے وعدوں میں شامل ہے۔

انہوں نے اپنے نئے دستور میں یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ، معاشی ترقی کے لیے 9 اسپیشل اکنامک زونز بنائیں گے، جن میں سی پیک، زراعت، پاور جنریشن، آئی ٹی، ماہی گیری وغیرہ شامل ہیں۔ آئندہ پندرہ برسوں میں برآمدات میں پندرہ فیصد اضافہ کریں گے، ٹیرف کی مشکلات کو ختم کریں گے، جی ڈی پی کی شرح سات فیصد سالانہ پر لانے کو کوشش کریں گے، جی ڈی پی کے 22 سے 25 فیصد کے برابر سرمایہ کاری ہوگی، جبکہ بجٹ خسارہ کُل جی ڈی پی کے 4 فیصد تک ہوگا۔ کاروباری قرضوں تک سب کو رسائی ہوگی۔ مالیاتی تعیلم دی جائے گی تاکہ بچت میں اضافہ کیا جاسکے۔ گھر خریدنے کے لیے آسان اقساط پر قرضے دیئے جائیں گے۔ سرکای محکموں کو سالانہ بنیادوں پر ہونے والے نقصانات کو ختم کیا جائے گا جبکہ 2030 تک ملک سے غربت کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ پانچ ایکڑ اسکیم کے تحت لاکھوں مالیت کی وہ زمینیں جو بے کار اور بنجر پڑی ہوئیں ہیں کاشتکاروں کو مہیا کی جائیں گی۔ کارپوریٹ ٹیکس کو 3900 ارب سے 7800 تک بڑھا دیا جائے گا۔

پی ٹی آئی کا منشور

پی ٹی آئی کے 2018 کے انتخابات میں پیش کیا گیا منشور 2013 جیسا ہی تھا مگر اس بار جن نکات کا اضافہ کیا گیا ہے ان میں سیاسی و انتظامی حکومت، بلا تفریق احتساب، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی، فوری انصاف کی فراہمی، روزگار کے مواقعے اور سستے گھر فراہم کرنا، پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے بھاشا دیا میر ڈیم اور مہمند ڈیم کے علاوہ دیگرآبی ذخیروں کی تعمیر، کرپشن کا خاتمہ، پولیس کو غیر سیاسی بنانا، ملک کو مدینہ کی ریاست بنانا، نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام اداروں کو مضبوط و مستحکم کرنے کے علاوہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لیے خصوصی ٹاسک فورس بنانا بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ تمام جائیدادوں کو شناختی کارڈ سے منسلک کرنا، سرکاری محکمے میں مشکوک سرگرمیوں کی شکایت کے لیے ہیلپ لائنیں قائم کرنا، میڈیا کی آزادی، پیسے کے استعمال میں بہتری کے لیے ای پروکیورمنٹ سسٹم کا نفاذ، میگا سٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے آغاز، شہر کراچی کو ترقی یافتہ شہر بنانا، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، میٹرنٹی ہیلتھ پروگرام، انکم سپورٹ پروگرام اور گرین گروتھ پروگرام کے آغاز کا وعدہ کیا۔