• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Web Desk
Web Desk | 02 فروری ، 2024

کراچی کے چھوٹے سے گھر کی چھت پر بنی متحدہ کیلئے امین الحق کا کیا کردار رہا؟

سابق وفاقی وزیر سیّد امین الحق کا متحدہ قومی موومنٹ کے بانی اراکین میں شمار ہوتا ہے۔

امین الحق 1988ء 1990ءاور 2018ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے انہوں نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔

1979ء میں امین الحق نے بھی ایم کیو ایم کے دیگر رہنماؤں کی طرح طلبہ سیاست کا آغاز کیا اور وہ جناح کالج میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ ہوگئے۔

امین الحق پیدائش سے لے کر اب تک کراچی میں ہی مقیم

امین الحق یکم جنوری1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، وہ کچھ عرصہ ناظم آباد اور دستگیر میں مقیم رہے جس کے بعد فیڈرل بی ایریا شفٹ ہوگئے۔

انہوں نے 1977ء میں فیڈرل اسکول ناظم آباد سے میٹرک اور 1982ء میں جناح کالج سے بی ایس سی جبکہ جامعہ کراچی سے تاریخ میں ماسٹرز کیا ہے۔

جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے امین الحق نے بتایا ہے کہ مجھے جناح کالج کا یونٹ انچارج بنایا گیا تھا پھر 1980ء میں مرکزی سیکریٹری اطلاعات مقرر ہوا اور جب 18مارچ 1984ء میں ایم کیو ایم کا قیام عمل میں آیا تو میں بانی اراکین میں بھی شامل تھا۔

ایم کیو ایم کے قیام کی خبر کس طرح عوام کو پہنچائی گئی؟

امین الحق کے مطابق اُس وقت ہم سترہ اٹھارہ نوجوان تھے، جن میں عظیم احمد طارق، طارق جاوید، ڈاکٹر عمران فاروق، ایس ایم طارق، طارق مہاجر، بدر اقبال، سلیم شہزاد، زرّین مجید، شیخ جاوید، آفاق احمد اور عامر خان وغیرہ تھے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ان ہی نوجوانوں نے لیاقت آباد، کراچی کے ایک چھوٹے سے گھر کی چھت پر ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی۔ آج بھی وہ دن یاد ہیں کہ کیسے ہم ٹیوشنز دے کر واپس آیا کرتے تھے، تو ہماری میٹنگز ہوا کرتی تھیں۔ ہم نے ایم کیوایم کے قیام کا پریس ریلیز جاری کیا، تو’’روزنامہ جنگ‘‘ کے اندر کے صفحے پر ایک چھوٹی سے خبر لگی تھی۔ بہرکیف، ہم نے عظیم احمد طارق کو پارٹی کا پہلا چیئرمین منتخب کیا۔

1984ء میں بننے والی متحدہ کی پتنگ کی ڈور آج کس کے ہاتھ میں ہے؟

1984ء میں بننے والی ایم کیو ایم میں آج خالد مقبول صدیقی کنوینئر جبکہ 4 سینئر ڈپٹی کنوینئر ہیں جن میں سیّد مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار، نسرین جلیل اور عامرخان شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ڈپٹی کنوینئرز ہیں اور اُن کے بعد رابطہ کمیٹی ہے جو فیصلہ سازی کی ذمّے دار ہے۔

اس کے بعد سی او سی اور سب سے آخر میں سیکٹرز ہیں جو تمام معاملات چلاتے ہیں۔