کراچی (ٹی وی رپورٹ) امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ امریکا پاکستان میں ارباب اقتدار نہیں ، ارباب اختیار سے معاملہ رکھنا چاہتا ہے ، ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پی ٹی آئی کی مشکلات حل نہیں ہوں گی، ٹرمپ عمران خان یا تحریک انصاف کا ساتھ کیوں دیں گے بظاہر ان کا نہ کوئی ذاتی مفاد ہے نہ کوئی سیاسی مفاد ہے ،ملک میں سیاسی کھلاڑیوں کا رویہ بھی یہ ہے کہ ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے ہم تو اسٹبلشمنٹ سے بات کریں گے۔ اگر یہ سلسلہ رہے گا تو جمہوریت کی گاڑی کیسے چل سکتی ہے ، امریکا میں اکثریت چین کو خطرہ سمجھتی ہے، روس سے گھبراہٹ اس لئے ہے کہ امریکی مفادات میں بدلاؤ آیا ہے،امریکا بہت سے خطوں سے نکل رہا ہے اور وہ یورپ پر فوکس کرنا چاہتے ہیں،روس کو صرف وہ یورپ کی حد تک خطرہ سمجھتے ہیں،ڈیموکریٹک پارٹی کو عام ووٹوں میں ملک میں اکثریت حاصل ہے جبکہ الیکٹرل ووٹ کا مقابلہ سخت ہوگا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین میں افرادی قوت میں کمی ہوئی ہے لیکن روس کو اقتصادی طور پر شدید نقصان ہوا ہے۔امریکا کی حیثیت اس جنگ میں مالی ہے اور امریکا اس وقت تک یوکرین کا ساتھ دیتا رہے گا جب تک انہیں یہ امید ہے کہ یوکرین روس کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔افغانستان سے نکلنے کے متعلق ٹرمپ، بائیڈن اور امریکا کی رائے ایک ہی تھی اور امریکا کا یہ خیال تھا کہ طالبان کو وسائل فراہم کر کے اس بات پر آمادہ کر لیا جائے گا کہ طالبان اپنا تصور اسلام اپنے خطے پر نافذ کر لیں باقی دنیا پر نظر نہ ڈالیں لیکن یہ حقیقت ہے میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو ا س بات کی مخالفت کر رہے تھے کہ امریکا افغانستان سے نکلے۔ کیا امریکا افغانستان پر دوبارہ حملہ کرسکتا ہے؟ اس کے جواب میں حسین حقانی نے کہا کہ اگر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ایسا ہوا جس پر امریکاکی قیادت اپنی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی کہ یہ حملہ ہم پر بحیثیت اجتماعی ہوا ہے اور اگر ہم نے اس کا مقابلہ نہیں کیا تو یہ ہمیں مزید نقصان پہنچائے گا۔یہ ایک سیاسی فیصلہ ہوگا لیکن اس کا تعلق امریکا کی رائے عامہ سے ہوگا۔دوسرا یہ کہ اگر امریکا دوبارہ افغانستان میں آیا تو اس کو اندازہ پہلے سے مختلف ہوگا۔ان جنگوں سے امریکا نے سبق سیکھا ہے یوکرین میں اپنی فوج نہیں بھیجی جبکہ دوسرے کی فوج کو مضبوط کیا ہے۔امریکا کے طالبان کے ساتھ مراسم ہیں کیوں کہ امریکایہ سمجھ چکا ہے کہ جس جس خطے میں بھی ہم نے آپریٹ کرنا ہے وہاں یا تو ہماری اپنی موجودگی ہو یا ہمارا کوئی اتحادی موجود ہواور یا اگر کوئی ہمارے مفادات کے خلاف بھی ہے ان میں بھی کچھ عنصر ایسا ہونا چاہیے جس کے مفادات ہم سے وابستہ ہوجائیں اس حکمت عملی کے تحت وہ طالبان کے ایک طبقہ کے ساتھ روابط برقرار ہیں۔ جہاں تک یہ بات کی جاتی ہے کہ افغانستان کے ذریعے چین اور پاکستان کو دباؤ میں لایا جائے ۔ پاکستان کو پرانی غلط فہمی ہے کہ ساری دنیا اُن کے پیچھے ہے ہمیں اس سوچ سے نکلنا چاہیے۔ یہ بات صاف ہے کہ امریکا کے بھارت کے ساتھ تعلقات پہلے ہی ٹھیک ٹھاک ہیں اور اس خطے میں اگر استحکام کی ضرورت ہوگی تو وہ پاکستان ہی ہوگاتو پھر وہ پاکستان کو چین کے کیمپ میں کیوں دھکیلے گا کہ اس کے بعد اگر اسے پاکستان کی ضرورت پڑے تو پاکستان کام نہ آئے اس وقت چاہے ضرورت نہ ہو مستقبل میں ہوسکتی ہے۔