لو جی، فراہمی انصاف میں تیزی لانےکیلئے سپریم کورٹ کو اپنے ڈھب پر ڈھالنےکیلئے جو متنازع آئینی ترمیم حال ہی میں بزور دولت، اتنی ہی متنازع فارم 47والی اسمبلی سے منظور کرائی گئی اس پر کسٹم میڈ آئین کا کسٹمر بھی پریشان ہوگیا ہے۔ارے ارےآئین بھی کسٹم میڈ؟ اور اس کا بھی کوئی کسٹمر؟ جی ہاں وہ (کسٹم میڈ آئین) اب نافذ العمل ہے لیکن اس کا کسٹمر کون ہے؟ حضور! پی ڈی ایم حکومت اور اسکے پشتی بان اتحادی ایم کیو ایم سےلے کر بڑے بڑے تگڑے، آخر ہوا کیا؟ ...کو پڑ گئے مور۔ کس کو کس کو؟ وہ جنکی خالی تجوریاں، اجڑا سرکاری خزانہ اور جیبیں 8فروری کے الیکشن کی برکت سے مینڈیٹ سے بھر دی گئیں، جو کچھ خالی ہیں اس کو بوقت ضرورت بزور دولت بھرنے کا بمطابق مستقل انتظام، دیکھا کیسا ہے ہمارا بنایا نظام؟ لیکن پھر بھی بلاول کا اتنا رونا دھونا کیوں؟ ہم نے تو کئی روز تک چڑھتی راتوںمیں ٹی وی اسکرینوں پر دیکھا کہ اسلام آباد کے جگ مگ بیت المولانا میں بلاول میاں مولانا کی نگرانی میں بیٹھے پاپڑ بیل رہے ہیں اور مولانا سمجھا رہے ہیں کہ اسے ادھر سے کاٹو ادھر سے چھانٹو، دوسری جانب بلاول پر پاپا یہ راز افشا کر چکے تھے کہ تم نے اپنا گھڑا پاپڑ مولانا کے گلے سے اتار دیا تو سمجھوکہ ترمیم منظور آج نہیں تو کل ہما تمہارے سر پر آ کر بیٹھے ہی بیٹھے۔ بلاول کی بے تابی اور مولانا کے مطلب کا پاپڑ گھڑنے کا منظر پاکستان کے آئین پرست بابے، آئینی ماہرین، پی ٹی آئی کا فریزڈ ووٹ بینک اور بلاول کی عمر کا شباب سوال بنا حیرانی و پریشانی و صدمے میں مبتلا تو اتر سے دیکھتا رہا۔
قارئین کرام! اب آپ سوال بن گئے نہ کہ یہ سب کیا ہے؟ ہوا یہ کہ رات سونے سے پہلے بلاول کو ٹی وی اسکرین پر پریشان دیکھا کہہ رہے تھے کہ آئین سازی (جی ہاں انہوں نے یہی کہا) میں برابری کی بات ہوئی تھی۔ مطلب یہ کہ وہ بتا رہے ہیں کہ 26ویں ترمیم کا بل اسمبلی میں لانے سے پہلے ن لیگی حکومت کے قائدین سے برابری کی بات ہوئی تھی، لیگی حکومت معاہدے پر عمل نہیں کررہی۔بلاول ہائوس کراچی میں میڈیا ٹاک کرتے اور کیا بولے، پڑھتے جائیں اور سوچتے جائیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ بولے :’’ اسی سبب میں جوڈیشل کمیشن سے احتجاجاً الگ ہو گیا، کمیشن میں ہوتا تو آئینی بنچ میں فرق پر بات کرتا، حکومت سے دیہی سندھ سے سپریم کورٹ میں ججز کے معاملات پر بات ہوئی، انٹرنیٹ اور وی پی این بندش پر ہم سے مشاورت نہیں ہوئی، حکومت زراعت اور ٹیکنالوجی کے شعبے کو نقصان پہنچا رہی ہے، وفاقی آئینی بنچ میں سندھ کیلئے الگ طریقہ اختیار کیا گیا‘‘۔ قارئین کرام! بی الرٹ، مزید توجہ درکار، بلاول میاں اور بولے: ’’میں جو ڈیشل کمیشن میں ہوتا تو آئینی بنچ میں فرق پر بات کرتا اور حکومت سے دیہی سندھ سے سپریم کورٹ میں ججز کے معاملے پر بات ہوتی۔ ہمیں انصاف کے سب سے بڑے ادارے میں برابر نمائندگی چاہیے۔ ایک ملک میں دو نظام نہیں چل سکتے۔ وفاقی آئینی بنچ میں سندھ کیلئے الگ طریقہ اختیار کیا گیا، ہمارے صوبے کے ساتھ بار بار تفریق اور الگ رویہ نظر آتا ہے۔ سندھ کیلئےبھی وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا جو وفاق نے اپنے لئے استعمال کیا ہے۔ چیف جسٹس اور آئینی بنچ کے سربراہ کو غیر متنازع ہونا چاہیے۔ ن لیگ پیپلز پارٹی، طے ہوا تھا کہ پی ایس ڈی پی مشاورت سے بنائی جائے گی، میں 26ویں ترمیم میں مصروف تھا، حکومت نے پیچھے بیٹھ کر کینالز کی منظوری دے دی۔ ہم اس منصوبے سے اتفاق نہیں کرتے، اتفاق رائے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے میری ذمے داری ہے کہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کو زمینی حقائق سے آگاہ کروں۔ قانون سازی بھی مکمل مشاورت سے ہونی چاہیے سیاست عزت کیلئے ہوتی ہے، ناراضگی کیلئے نہیں، حکومت سے ناراض نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومت پارٹنرز کے ساتھ معاہدوں پر عمل کرتی ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ معاہدے پر کتنا عمل ہوا۔‘‘
قارئین کرام! پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی اس میڈیا ٹاک نے ملکی گورننس کی تشویشناک حالت کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سے قبل کہ اس کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے یہ واضح کرنا لازم ہے کہ جس طرح چیئرمین بھٹو میڈیا ٹاک میں بتائے گئے حقائق سے اپنی پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کو آگاہ کرنے کے ذمے دار ہیں، ناچیز قلم مزدور بھی پیشہ ورانہ پابند ہے کہ عوام الناس پاکستان کو ایک بار پھر مسخ ہوگئے آئین سے پہلے کے اصل آئین اور متعلقہ علوم کی روشنی میں آگاہ کرے کہ 26ویں ترمیم میں سلطنت پاکستان اور فسطائیت سے دب گئی قوت اخوت عوام کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہو گیا۔ مذہبی جذبے کی مانند انتہائی سرعت سے عملاً اختیار و نافذ کی گئی 26ویں ترمیم نے اپنی عوام دشمنی کا رنگ اپنے نفاذ کے آغاز پرہی دکھا دیا۔ تمام ہی جج صاحبان لائیر کمیونٹی کی بھاری اکثریت اور عوام الناس تو پہلے ہی اس ترمیم سے برآمد غیر جمہوری حکومتی اقدامات پر کنفیوژ اور ہراساں ہیں، اب اس کی تشکیل میں پیش پیش سرخیل بھی اس پر کتنے پریشان ہیں، بلاول حکومت سے ناراض ہیں یا نہیں مملکت اور عوام کے خلاف اس کا خسارہ مکمل بے نقاب ہو گیا ہے ویسے بھی بڑی حد تک ترمیم پیش کرنے کی تیاریوں، پی ڈی ایم کے باہمی اتفاق اور باامر مجبوری مولانا اور پی ٹی آئی کی جزواً اور مشروط رضا مندی پر بھی انداز واضح تھا۔ 45والی اصلی مینڈیٹڈ پارلیمانی فورس کوبھی عجیب مخمصے میں ڈالا گیا کہ وہ 26ویں ترمیم کو مانے بھی اور ایوان میں اس کے ارکان کی حاضری کو روکنے کے غیر جمہوری ہتھکنڈے ہوئے۔ اب جو کچھ ملکی سیاسی استحکام پہلے سے سوال بنے نظام انصاف و عدل اور اسکے منفی اثرات کے حوالے سے ہو رہا ہے، ملکی معیشت کیلئے روایتی خسارہ ہی نہیں تباہ کن بھی ہو گا؟
بلاول بھٹو کی میڈیا ٹاک کا چونکا دینے والا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے بڑی خبر بریک کی کہ:پہلے ہی بیمار ملکی آئینی اور سیاسی عمل میں زہر گھولنے والی ترمیم کی منظوری کیلئے، قوت اخوت عوام کی قوت و اخوت کو بنیادی حقوق سے محروم کرکے دولا شاہی تابعداری میں لانے کے اس کھلواڑ کے حاصل سے بندر بانٹ کا کوئی معاہدہ ن لیگ اور پی پی کے درمیان ہوا ہے اس کی تو میڈیا کو ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی گویا 26ویں ترمیم کے مندرجات کی طرح آخری لمحے تک پوشیدگی سے بھی زیادہ پوشیدہ ہوا یہ آئینی ترمیم کیلئے ملک گیر سطح پر رائے عامہ کا مشورہ اور حصہ کے لازمی علمی اور آئینی دونوں تقاضوں سے متصادم ہے۔ (جار ی ہے)