مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہم نے مذاکرات میں ڈیمانڈز پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
عرفان صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ویسے بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ وہ نہیں آئیں گے اور اگر ان کا فیصلہ ہے کہ وہ نہیں آئیں گے تو پھر ہم بھی دیکھیں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ کمیٹی میں 7 حکومتی اتحادی شامل ہیں اور سب کی اپنی مصروفیات ہیں، وہ بتا دیتے کہ چوتھی میٹنگ سے پہلے مطالبات پورے ہونے ہیں تو اسے اعلامیے میں شامل کر لیا جاتا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر کے مطالبات پر جواب ہم نے 28 تاریخ کو دینے تھے، ہم نے 6 ہفتے ان کی ڈیمانڈز کا انتظار کیا، اپوزیشن کے جواب دینے کے لیے7 دن مانگے تھے۔
اُنہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے 23 تاریخ کو مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا، مذاکرات کو ختم کرنے کے لیے مختلف بہانے بنائے کیونکہ وہ مذاکرات ختم کرنا چاہتے تھے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ مذاکرات کا عمل عملاً ختم ہو چکا ہے لیکن کمیٹی قائم ہے اور 31 جنوری تک کمیٹی قائم رہے گی اس دوران اگر اپوزیشن مذاکرات دوبارہ شروع کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، ہمارا حتمی جواب تیار ہے، کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے تو جواب پیش کریں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی کچھ اور ترجیحات ہوں گی اس لیے انہوں نے مذاکرات کا جو عمل شروع کیا خود ہی سبوتاژ کر دیا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے وزیرِ اعظم پر تنقید کی، فوج پر تنقید کی، جمہوری عمل کی بے توقیری کی گئی اس لیے ہم نہ انتظار کریں گے اور نہ ہی کوئی پیغام لے کر جائیں گے۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ نظرِ ثانی کریں گے تو ہم غور کریں گے باقی مذاکراتی کمیٹی وزیرِ اعظم ہی تحلیل کریں گے۔