سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی میں سامنے آنے والا یہ انکشاف، کہ پاکستانی بندرگاہوں کے چار جز خطے کی سب بندرگاہوں سے زیادہ ہیں، ان حلقوں کے لئے حوصلہ شکن ہے جو پاکستانی بندرگاہوں ،خصوصاً گوادر، کو وسطی ایشیائی ممالک کی تجارت کے اہم راستوں اور مراکز کے طور پر جلد فعال دیکھنا چاہتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اراکین کا مطالبہ بھی یہ تھا کہ گوادر کی ترقی چاہئے ، تو اسے ٹیکس فری زون بنایا جائے۔ جمعرات (15مئی 2025ء) کو کمیٹی میں دی گئی بریفنگ کے بموجب بندرگاہوں کے شپنگ چارجز کسٹم اور گوادر پورٹ اتھارٹی کے حکام متعین کرتے ہیں۔ بریفنگ سے واضح ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ، جو گوادر پورٹ کے بعد بننا شروع ہوئی، آج فنکشنل ہے جبکہ گوادر پورٹ تاحال فنکشنل نہیں کہی جاسکتی۔ 2009ء میں گوادر پورٹ پر 70جہاز آئے جبکہ 2024ء میں آنے والے جہازوں کی تعداد صرف چار رہی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ گوادر پورٹ کے شپنگ چارجز سب سے زیادہ ہیں۔ یہ کیفیت ایسی صورتحال میں بطور خاص حیران کن اور بازپرسی کی متقاضی ہےکہ پچھلے برس وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی میں (7جولائی کو) اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایل این جی جہازوں کی فیس کم کرنے سمیت وسطی ایشیائی تجارت میں معاونت کے متعدد اقدامات اور بعدازاں اسلام آباد کی فالو اپ میٹنگ میں شپنگ انڈسٹری کے لئے ریگولیٹری باڈی کی تشکیل کی ہدایت کی تھی۔ پاکستانی بندرگاہوں، بالخصوص گوادر کو وسطی ایشیائی تجارت کے مرکز کے طور پر سرگرم کرنے کے لئے فری زون بنانے سمیت ہمہ جہت اقدامات جلد بروئے کار لائے جانے چاہئیں۔ ہماری بندرگاہیں وہ سرمایہ ہیں جن کی فعالیت پاکستان ہی نہیں وسطی ایشیا سمیت دنیا کے متعدد ملکوں کی معیشت بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔