اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں)سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم جلسہ کرسکتے ہیں اور نہ لوگوں کو ہاتھ کھڑا کرنے کا کہہ سکتے ہیں، عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے، کوئی ججز کو نکال باہر نہیں کرسکتا، ڈرانے والے عدالت آکر دیکھیں ہم ڈرتے یا نہیں، بے انصافی سے معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا، انصاف کرنا ہماری ذمہ داری ہے، عدالتیں ختم ہوجائیں تو پھر جنگل کا قانون ہوگا، بلا جواز تنقید ہو تو جج جواب دے سکتے ہیں، برطانیہ میں ایسا ہوتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کون صحیح تھا کون غلط فیصلہ عوام کرینگے، کسی آئینی ادارے کو دھمکانا، تنقید کرنا آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ معاشرہ سو نہیں رہا، جاگ رہا ہے۔بدھ کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربرا ہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت کے دور ان پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ اور پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے رہنما راجہ ظفرالحق بھی پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق سے کہا کہ آپ عدالت میں آتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے،آج کل آپ کے ڈرانے والے لوگ عدالت نہیں آتے، ذرا اْن لوگوں کو کبھی پیار سے لے کر آئیں،دیکھیں ہم ڈرتے ہیں یا نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا تقدس واضح نظر آنا چاہیے تھا۔ لطیف کھوسہ کے خلاف فیصلہ دیا لیکن انکے ماتھے پر شکن نہیں آتی۔اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ نواز شریف نے عدالت اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی، 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا گیا۔