• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ نہیں ہوسکتا ،کسی کوایک ،کسی کو5سال کیلئے نااہل کردیا، معیار ہونا چاہیے،چیف جسٹس

Todays Print

اسلام آباد (نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے مقدمات کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تو نہیں ہوسکتا کسی کوایک سال اورکسی کو5سال کیلئے نااہل کردیاکوئی نہ کوئی معیار ہونا چاہیے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ کچھ نااہلی ایسی ہوتی ہے جن کیلئے عدالتی ڈیکلریشن ضروری ہوتا ہے کچھ نااہلی ایسی ہوتی ہے جس کیلئے ڈیکلریشن ضروری نہیں ہو تا ،عدالت نے مقدمہ میںفریق نہ بننے کے حوالے سے نوازشریف کے جواب کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا نوازشریف کی طرف سے کوئی دلائل دے گا؟ اگرکوئی پیش نہیں ہورہا تو کیا جواب مسترد کردیں، اس دوران عدالت نے نوازشریف کے جواب کو ریکارڈ کا حصہ بنا یا گیا۔ چیف جسٹس میا ں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجر بنچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے مقدمات کی سماعت کا آغاز کیا تو امائیکس کیورائے ، علی ظفر ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ اہم نکتہ ہے کہ نااہلی صرف ایک الیکشن تک ہوتی ہے، پارلیمنٹ نے عدلیہ پر نااہلی کے حوالے سے اعتماد کیا ہے اس لئے نااہلی کا کم سے کم دوراینہ پانچ سال ہے اور زیادہ سے زیادہ جرم کے حساب سے ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے ،جس پرانہوںنے کہاکہ مدت کا تعین نہ کرنا پارلیمنٹ کی غلطی نہیں، پارلیمنٹ نے کیس کے حقائق کے مطابق فیصلہ عدالت پر چھوڑا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ سزا کی مدت کا تعین آرٹیکل 63 میں ہے 62 میں نہیں۔ چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیاکہ کیا نااہلی تاحیات ہوتی ہے یا 5 سال کیلئے؟ کیا نااہلی ایک الیکشن کیلئے ہوتی ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ تاریخی اعتبار سے نااہلی تاحیات ہوتی ہے لیکن آرٹیکل 62ون ایف کی تشریح نہ کرکے پارلیمنٹ نے عدالت پر اعتماد کیاہے پارلیمنٹ کی بصیرت یہ تھی کہ عدالت اپنی منطق سے نااہلی کی مدت کاتعین کرے کم سے کم اورزیادہ سے زیادہ مدت کاتعین عدالت نے کرناہے، الیکشن لڑنا ہر شخص کابنیادی حق ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن لڑنے کیلئے اہلیت کاہونا ضروری ہے ،علی ظفر نے کہاکہ آئین کی تشریح کیلئے تعمیراتی ڈھانچے کا تصور بھی ہے ،مطلب اس مدت کا تعین اس تصور سے عدلیہ نے کرنا ہے،عدالت کازیادہ وقت نہیں لوں گا تو چیف جسٹس نے برجستہ کہاکہ جسٹس شیخ عظمت سعید تہہ کرکے بیٹھے ہیں کہ آج سات بجے تک کیس سنیں گے، آپ نے جلدی دلائل ختم کئے تو یہ ناراض ہو جائینگے۔

تازہ ترین