• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی چینل پر فارن فنڈنگ ثابت ہوگئی تو لا ئسنس منسوخ کر دینگے،چیف جسٹس

Todays Print

اسلام آباد ( رانا مسعود حسین ) عدالت عظمی نے جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد اور سینیٹرجاوید جبار پر مشتمل میڈیا کمیشن رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہائوسز کی منیجمنٹ سے د س روز کے اندر اندر صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو اس روز تک ادا کی گئی تنخواہوں کی تفصیلات کیساتھ ساتھ تنخواہوں اور بقایا جات میں تاخیر کی وجوہات سے متعلق رپورٹ بھی طلب کرلی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میڈیا ہائوسز والے صحافیوں کے کفیل بنیں، مالک نہیں ، آٹھویں ویج ایوارڈ اور الیکٹرانک میڈیا کے سروس سٹرکچر کا معاملہ آئندہ سماعت پر دیکھیں گے ، کسی میڈیا گروپ کو اشتہارات ملتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اس میں شفافیت ہونی چاہئے ،عدلیہ کی سب سے بڑی کمزوری اپنی مشہوری ہوسکتی ہے، ہم مشہوری کیلئے کوئی کام نہیں کرتے ، اگر ججز ذاتی مشہوری کیلئے کام کریں تو عدلیہ تباہ ہوجاتی ہے ، کھانے پینے کی چیزوں پر ایکشن لیتے تھے تو پنجاب حکومت اگلے روزاشتہار دے دیتی تھی، ہمیں شہرت نہیں چاہئے، اشتہارات کے بغیر بھی کام چل سکتاہے، انہوں نے پوچھا اشتہارات جاری کرنیکا کیا طریقہ کار ہے ؟سرکاری اشتہارات اجراء کے حوالے سے صوبائی محکمہ ہائے اطلاعات کا موقف بھی سنیں گے ، سرکاری اشتہار ات کوریگولیٹ کرنا ہوگا، لاہور میں سیف سٹی پر لمبے لمبے اشتہار چلائے گئے، کیوں نہ ان چینلوں سے پوچھا جائے پنجاب حکومت نے کتنے پیسے دئیے ہیں ،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو وفاقی سیکر ٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا ، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے وکیل اعتزاز احسن ،جنگ جیو کے وکیل اکرم شیخ ،جیو کے اینکر حامد میر، پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ اور دیگر اداروں کے صحافی پیش ہوئے، حامد میر نے عدالت کو بتایا ویج بورڈ ایوارڈ پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے مگر عمل نہیں ہو رہا، چیف جسٹس نے کہا عمل درآمد کا معاملہ متعلقہ فورم پر چل سکتا ہے،حامد میر نے استدعا کی میڈیا کمیشن کی سفار شا ت پر عمل کیا جائے، کمیشن نے سفارش کی تھی پیمرا کو حکومتی کنٹرول سے آزاد ہونا چاہیے، حکومت نے قانون میں ترمیم کے ذریعے آزاد کرانیکی یقین دہانی بھی کرائی تھی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا اس حوالے سے کمیٹی کام کررہی ہے ، چیف جسٹس نے کہا اڑھائی سال پہلے کمیشن کی رپورٹ آچکی ہے،حکومتی کمیشن نے اب تک کام مکمل نہیں کیا، ہے پیمرا کو واقعی آزاد اور خود مختار اد ارہ ہوناچاہیے، عدالت نے سیکرٹری اطلاعات سے جواب طلب کیاتو انہوں نے کہا انہیں اس عہدہ پر ایک سال ہونیوالا ہے یہ معاملات انکے سامنے نہیں آئے اسلئے جائزہ لینے کیلئے کچھ مہلت دی جائے،جس پر عدالت نے انہیں کمیشن رپورٹ اور اس سے متعلق عدالت کے حکم کا جائزہ لیکر جواب جمع کرانیکی ہدایت کی ،دوران سماعت میڈیا گروپوں کو فارن فنڈنگ کا معاملہ اٹھایا گیا تو جیو ،جنگ گروپ کے وکیل اکرم شیخ نے موقف اختیار کیا جیو اور جنگ کے پروگرام ذرا سوچئے اور امن کی آشا ء کو سوچی سمجھی سازش کے تحت سکینڈلائز کیا گیا ، ، پیمرا نے بھی ان الزامات کی تردید کی ہے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کسی چینل پر فارن فنڈنگ ثابت ہوگئی تو اسکا لائسنس کینسل کر دینگے، اعتزاز احسن نے کہا میرے موکل نے میڈیا کمیشن رپورٹ کی سفارشات پراتفاق کیا ہے، ہماری استدعا ہے پیمرا کو آزاد اور خود مختار بنایاجائے ، افضل بٹ نے موقف اختیار کیا اخباری ملازمین کیلئے ساتویں ویج ایوارڈ کا اعلان 2001 ء میں ہوا تھا ، نیوز پیپرز ایمپلائیز کنڈیشن آ ف سروسز ایکٹ1973 ء کے مطابق پانچ سال کے بعد ویج بورڈ کی تشکیل لازمی ہے لیکن سولہ برس گزرنے کے بعدبھی ابھی تک وفاقی حکومت نے آٹھواں ویج بورڈ تشکیل نہیں دیا ہے جس کیوجہ سے اخباری ملازمین شدید مالی مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں،حکومت پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو اربوں روپے کے اشتہارات دیتی ہے مگر ابھی تک الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں اور ورکرز کیلئے سروس سٹرکچر کو کوئی قانونی شکل نہیں دی گئی، ایک ورکر رات تین بجے تک کام کر کے گھر جاتا ہے تو اگلے ہی دن اسے ملازمت سے برخاستگی کا حکم مل جاتا ہے، چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات سے پوچھا سولہ سال سے ویج بورڈ ایوارڈ کیوں نہیں نافذ کیا گیا ،تو انہوں نے مہلت مانگ لی ، عدالت کے نوٹس میں لایا گیا کہ اکثر رپورٹروں کی تنخواہیں چالیس ہزار روپے سے بھی کم ہیں ،وہ اور انکے خاندان کے لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،کئی میڈیا ہائوسز میں صحافیوں اورمیڈیا ورکرز کو کئی کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں ، صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرنیوالا کوئی نہیں ، صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی کہیں شنوائی نہیں ،نوکری کا بھی کوئی تحفظ نہیں ، بغیر نوٹس جاری کئے نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے ، میڈیا ہائوسز کے کیمروں کی تو انشورنس ہے لیکن صحافیوں کی نہیں ،نہ ہی طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ، پرنٹ میڈیا کیلئے تو ویج بورڈ ہے، لیکن الیکڑانک میڈیا کیلئے نہیں ، چیف جسٹس نے سیف سٹی پراجیکٹ کے اشتہارات کے اجراء کی دوماہ کی تفصیلات ، چئیرمین پیمرا اور ممبران کی تعیناتیوں سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کی رپورٹ طلب کر تے ہوئے مزید سماعت20 فروری شام 4بجے تک ملتوی کردی ۔

تازہ ترین