اسلام آباد (جنگ نیوز/نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ فرض کرلیں آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے ‘ اس آرٹیکل کی تشریح کرنا مشکل کام ہوگا‘ جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا تو نااہلی رہے گی‘ ہماری نظر میں آرٹیکل 62اور63 آزاد اور الگ الگ ہیں‘ ممکن ہے نااہلی کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کردیں‘ عدالت کسی مبہم آرٹیکل کو کالعدم کیسے قرار دے سکتی ہے،یہ تاثر درست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں۔تفصیلات کے مطابق عدالت عظمی میں آئین کےآرٹیکل62ون ایف کے تحت عوامی نمائندے کی نااہلیت کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سینئر وکیل عاصمہ جہانگیر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت سوموار 12 فروری تک ملتوی کردی گئی ،آئندہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل ،اشتر اوصاف علی دلائل پیش کریں گے ، چیف جسٹس ،میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آئین کاآرٹیکل62ون ایف مبہم ہے،اس کی تشریح کرنامشکل ہوگا ، یہ تاثردرست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں، پارلیمنٹ ایک آزاد اور خود مختارادارہ ہے،اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین سپریم کورٹ نے کرنا ہے، جب تک کسی عوامی نمائندے کے خلاف ڈیکلریشن رہے گا اس وقت تک اس کی نااہلیت قائم رہے گی، ممکن ہے نااہلی کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کردیں،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجر بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو عام انتخابات میں ساہیوال کے حلقہ این اے 162سے کامیاب قرار دینے کے بعد اثاثے چھپانے کی پاداش میں عوامی عہدہ کیلئے نااہل قرار دیئے جانے والے پی ٹی آئی کے سابق رکن قومی اسمبلی و درخواست گزاررائے حسن نواز کی جانب سے عاصمہ جہانگیر پیش ہوئیں اور دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ووٹرز کیلئے کوئی نااہلی یانااہلیت نہیں ہوتی ، آرٹیکل62ون ایف میں ابہام ہے، اس آرٹیکل میں یہ بھی واضح نہیں کہ کسی شخص کی شہرت اچھی یا برے کردار کاتعین کیسے ہوگا؟ڈیکلریشن کونسی عدالت دے گی ، انہوںنے کہا کہ ان کے موکل رائے حسن نواز کو اپنی کمپنی کے اثاثے چھپانے کی بنیاد پرنااہل کیاگیا ہے ، کمپنی کے اثاثے فروخت ہوچکے تھے اورکمپنی ان کے نام پربھی نہیں تھی، انہوںنے کہا کہ جوکام پارلیمنٹ نے نہیں کیا،وہ عدالت کیسے کرسکتی ہے؟سیاسی معاملات پر فیصلہ سازی پارلیمنٹ کوکرنی چاہیے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال ہونی چاہیے، جس پرجسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت ٹھوس سوالات کوحل کرسکتی ہے، عدالت مفروضوں پرمبنی سوالات کوحل نہیں کرسکتی ، دیکھنایہ ہے کہ کیا آرٹیکل62ون ایف کاسوال ٹھوس ہے؟1985سے قبل کسی کو نااہل قرار نہیں دیا گیا تھا، 2000میں ایل ایف او آیا تو عوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم ہوئی تھی۔