اسلام آباد(رپورٹ:رانا مسعودحسین) عدالت عظمیٰ نے پاکستانی سافٹ ویئرکمپنی، ایگزیکٹ پرائیویٹ لمیٹڈکی جانب سے دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر جعلی ڈگریوں کی مبینہ فروخت سے متعلق انٹرنیشنل اسکینڈل کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم و کمپنی کے سربراہ شعیب شیخ اور اسکے ساتھی ملزمان کیخلاف ایف آئی اے کی جانب سے درج کئے گئے چار فوجداری مقدمات(ایف آئی آرز) کے حوالے سے ہدایت کی ہے کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کیس کی سماعت کیلئے ڈویژن بنچ تشکیل دیں اور ایک ماہ کے اندر اندر کیس کا فیصلہ جاری کیا جائے جبکہ دوسرے مقدمہ میں کراچی ہی کی ایک ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کی ضمانتیں منظور ہونے کیخلاف ایف آئی اے حکام سندھ ہائیکورٹ میں ملزمان کی ضمانتوں کی منسوخی کی اپیل دائر کرے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت مقدمہ میں ہدایت کی ہے کہ چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ایک ڈویژن بنچ تشکیل دیں جو کہ ایک ماہ کے اندر اندر فیصلہ جاری کرے۔جبکہ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس روح الامین کی جانب سے ایف آئی آر کی منسوخی کے حوالے سے جاری کئے گئے فیصلہ کے حوالے سے از خود نوٹس لیتے ہوئے رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ کو مقدمہ کی مکمل فائل سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے ، عدالت نے سینئر صحافیوں کی استدعا پر تمام ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق حکم واپس لیا۔ فاضل عدالت نے ملزمان کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس بیان حلفی جمع کروانے کا حکم جاری کیا کہ تمام ملزمان مقدمہ کے حتمی فیصلے تک ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔عدالت کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹ کی طرف سے ایکریڈیٹیشن جاری کرنے کے الزامات درست ہیں تو لوگوں کیساتھ جعلسازی اور فراڈ ہوا ہے،چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ یہ اہمیت کاحامل ایشو ہے ،ملکی وقار اسٹیک پرہے، قوم کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گا۔ انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ میرا قانون کا20 سالہ تجربہ ہے، کیا مجھے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے؟ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ایگزیکٹ میں 5ہزار ڈالر کے عوض ایک گھنٹےمیں مل جاتی تھی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ وحید مراد کہاں ہے، اس نے لکھا تھا جج پھرتیاں دکھا رہے ہیں۔ عدالت نے پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے مقدمہ میں فریق بننے کی درخواست پر مسول علیہان کو نوٹسز جاری کر دیا۔ سپریم کورٹ نے ضمانت کیس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتہ کیلئے ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعہ کے روز ایگزیکٹ جعلی ڈگری از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو ڈی جی ایف آئی اے، بشیر میمن پیش ہوئے اورعدالت میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔فاضل چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا ایگزیکٹ ایک کمپنی کے طور پر کام کررہی ہے،یہ کب سے ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہے؟ توانہوں نے بتایا کہ جولائی 2006 سے یہ کمپنی رجسٹرڈ ہے اور اس کا ہیڈ آفس کراچی میں خیابان اقبال میں قائم کیا گیاہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ان سے سوال کیا کہ ایگزیکٹ کا اصل کاروبار کیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ دستاویزات کی حد تک تو سافٹ ویئر کی برآمدات کا بزنس ظاہر کیا گیا ہے، لیکن اس کے 10 کاروباری یونٹ ہیں، ان کا 70 فیصد ریونیو آن لائن یونیورسٹیوں کی کمائی سے آتا ہے۔ایگزیکٹ کی 330 یونیورسٹیاں تھیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایگزیکٹ کا کسی یونیورسٹی سے بھی الحاق ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹوں کا صرف ویب پیچ تھا، کسی یونیورسٹی کا اس سے الحاق نہیں تھا۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کیمپس نہیں ہے تو کلاس رومز اور فیکلٹی بھی نہیں ہو گی ،یہاں پر بھی تو ورچوئل یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی بھی آن لائن کام کررہی ہے۔ڈی جی نے بتایا کہ درخواست دینے والے کو ایک گھنٹے کے اندر اندر ڈگر ی بھی مل جاتی تھی، 5 ہزار ڈالرز میں ایگزیکٹ کی ڈگری ملتی تھی اور اس کے لئے امیدوار کے تجربے کو بنیاد بناتے تھے۔فاضل چیف جسٹس نے ازراہِ تفنن ان سے استفسار کیا کہ میرا قانون کا 20 سالہ تجربہ ہے،کیا مجھے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے؟ڈی جی نے کہا کہ تجربے کی بنیاد پر آپ کو نہ صرف قانون بلکہ قانون میں اصلاحات اور انگلش کی ڈگری بھی مل سکتی ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میری انگلش اتنی اچھی نہیں ہے، انہوں نے شاید تخیلاتی یونیورسٹی قائم کررکھی ہے ،ڈی جی ایف آئی اے نےمزید بتایا کہ ایگزیکٹ کا اپنا پلیٹ فارم ہے جہاں پر ایکریڈیشن بھی کی جاتی ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کمپنی ایکریڈیشن کیسے کرسکتی ہے؟یونیورسٹیاں تو کسی قاعدے قانون کے تحت بنتی ہیں؟ جس پر ڈی جی نے بتایا کہ یہاں پر بھی ویب پیج بنا کر ایکریڈیٹیشن شروع کردی جاتی تھی اور یہ کام 2006 سے 2015 تک ہوتا رہا ہے۔فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کے یہ الزامات درست ہیں تو لوگوں کے ساتھ جعلسازی اور فراڈ ہوا ہے، جب قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر خبریں آئیں تو آپ کے ادارے (ایف آئی اے) نے ان کے خلاف مقدمات درج کرکے عمارتیں سیل کیں اور ان کا کمپیوٹر کا ڈیٹا قبضے میں لیا تھا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملزمان کے خلاف درج مقدمات کا اس وقت کیا سٹیٹس ہے؟انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے اسلام آباد کی جانب سےدرج ہونے والے فراڈ،منی لانڈرنگ اور الیکٹرانک کرائمز کی دفعات کے تحت درج کئے گئے۔ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد نے ملزمان کو بری کردیا ہے جس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل زیر التوا ہے۔فاضل عدالت کے حکم پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے پیش ہوئے اوربیان دیا کہ ایف آئی اے کی ملزمان کی بریت کے حکم کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو 22فروری کو جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سنگل بنچ کے سامنے لگایا گیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سنگل کی بجائے ڈویژن بنچ کے سامنے کیس کو لگایا جائے اور جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ جسٹس گل حسن اورنگزیب کو بھی شامل کردیں۔انہوں نے رجسٹرار سے استفسار کیا کہ کیا یہ وہی کیس ہے جس میں ایک جج نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے پیسے لیکر ملزمان کو بری کیا ہے ؟ عوام میں افواہیں پھیلی ہیں کہ اسلام آباد کی ایک عدالت کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج نے ملزم شعیب شیخ وغیرہ سے پیسے لیکر انہیں بری کیا ہے ،اس جج کا نام کیا ہے اور اس کے خلاف کیا کارروائی ہورہی ہے؟ رجسٹرار نے بتایا کہ اس جج کا نام پرویز القادر میمن ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ازراہِ تفنن ڈی جی ایف آئی اے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپ کی برادری کا نکل آیا ہے! جس پر انہوں نے کہا کہ یہ اس کا انفرادی فعل ہے ،وہ میرا عزیز بھی ہے، میں فی الحال یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ گنہگار ہے یا نہیں ہے لیکن مجھے اس حوالے سے یہاں پربہت شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ رجسٹرار نے عدالت کو مزید بتایا کہ ایڈیشنل اینڈ سیشن جج پرویز القادر میمن کی جانب سے مبینہ رشوت لیکر ملزمان کو بری کرنے کا معاملہ 12فروری کو چیف جسٹس کے پاس 11بجے کے لئے فکس ہے۔جس پر چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ اس حوالے سے آپ نے رجسٹرارسپریم کورٹ کو مکمل طور پر آگاہ رکھنا ہے۔ڈی جی نے ایف آئی اے پشاور کی جانب سے درج مقدمہ سے متعلق تفصیلات لکھواتے ہوئے بتایا کہ اس کیس کو چلایا ہی نہیں گیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ میں چالان جمع کروایا تھا۔