اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ میں ا لیکشن ایکٹ 2017 کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت منگل 13فروری تک ملتوی کردی گئی ہے ،آئندہ سماعت پر سلمان اکرم راجہ اوراٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی دلائل پیش کریں گے، چیف جسٹس ،میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 28 جولائی کے بعد سے وزیراعظم کے بیانات سب کے سامنے ہیں، نئے قانون کے تحت سزا یافتہ شخص بھی پارٹی سربراہ بن سکتا ہے، اس قانون کو صرف نواز شریف کی حد تک نہیں بلکہ عمومی طور پر دیکھ رہے ہیں، چیف جسٹس میاںثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روز کیس کی سماعت کی تو ،درخواست گزارجسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے وکیل، شیخ احسن الدین نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ سے پانامہ کیس میں نا اہلیت کے ساتھ ہی نواز شریف مسلم لیگ ن کی صدارت کے عہدہ سے بھی فارغ ہوگئے تھے، صرف نواز شریف کوہی مسلم لیگ ن کاصدر بنانےکیلئے یہ قانون بنایا گیا ہے، آئین کے تحت نااہل شخص کو عام قانون سازی سے بحال نہیں کیا جاسکتا ،انہوںنے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی حواس باختہ ہوچکے ہیں، جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ 28 جولائی کے بعد سے وزیراعظم کے بیانات سب کے سامنے ہیں، نئے قانون کے تحت سزا یافتہ شخص بھی پارٹی کاسربراہ بن سکتا ہے، صرف نواز شریف کی حد تک نہیں بلکہ عمومی طور پر بھی اس قانون کو دیکھ رہے ہیں، ذوالفقار احمدبھٹہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ فروغ نسیم اور لطیف کھوسہ کے دلائل کو اختیار کررہے ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کے فیصلے کو قانون سازی کے ذریعے براہ راست تو غیر موثر کیا جاسکتا ہے لیکن بالواسطہ طور پر نہیں،سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دیئے جانے والے شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے قانون سے نہ صرف سپریم کورٹ کا فیصلہ بلکہ آئین کی متعلقہ شق بھی غیر موثر ہو گئی ہے،۔