• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لائبہ نعمان
لائبہ نعمان | 14 مارچ ، 2018

’آئن اسٹائن ‘کی دوسری موت،اسٹیفن ہاکنگ بھی نہیں رہے


اسٹیفن ہاکنگ کو غیر معمولی ذہانت کی بدولت آج آئن اسٹائن کی طرح سائنسدان قرار دیا جارہا ہے۔ اس عظیم سائنسدان نے کائنات میں ایک ایسا ’ بلیک ہول ‘ دریافت کیا تھاجس سے روزانہ نئے سیارے جنم لیتے ہیں، اس بلیک ہول سے ایسی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو کائنات میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بھی ہیں۔ ان شعاؤں کو اسٹیفن ہاکنگ کے نام کی مناسبت سے ’ہاکنگ ریڈی ایشن ‘ کہا جاتا ہے۔

’آئن اسٹائن ‘کی دوسری موت،اسٹیفن ہاکنگ بھی نہیں رہے

ہاکنگ فزکس اور ریاضی میں چیمپئن تھے۔بڑے سائنسدان ان کے سائنسی کارناموں پر حیرت زدہ ہیں۔ عظیم کام اور عظیم نام اسٹیفن کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو تھا۔

ان کی زندگی کا ایک اور منفرد اور المناک پہلو ایک عجیب بیماری بھی رہا۔ وہ 21 سا ل تک درمیانے درجے کے طالبعلم،اورسائیکلنگ، فٹ بال اور کشتی رانی کے شوقین رہے۔

’آئن اسٹائن ‘کی دوسری موت،اسٹیفن ہاکنگ بھی نہیں رہے

روزانہ پانچ کلومیٹر دوڑنا تو معمول تھامگر 1963ءمیں جب وہ کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے ایک دن سیڑھیوں سے پھسل گئے ۔طبی معائنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ پیچیدہ ترین بیماری’’ موٹر نیوران ڈزیز ‘‘ میں مبتلا ہیں۔

طبی زبان میں ’’اے ایل ایس‘‘ کہلائے جانے والی یہ بیماری دل کو متاثر کرتی ہے۔ دل پر چھوٹے عضلات جسم کے مختلف افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس بیماری کی تشخیص سے پہلے سائنسدان صرف دماغ کو ہی جسم کا مالک خیال کرتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ’ اے ایل ایس ‘کا پہلا مریض سامنے آیا تو پتہ چلا جسمانی سرگرمیوں کا مرکز صرف دماغ نہیں دل بھی ہے۔

’آئن اسٹائن ‘کی دوسری موت،اسٹیفن ہاکنگ بھی نہیں رہے

دل کے عضلات ’’ موٹرز ‘‘کہلاتے ہیں۔اگر یہ ”موٹرز“ مرنا شروع ہو جائیں تو جسم کے تمام اعضا ایک، ایک کر کے ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔ انسان خود کو آہستہ آہستہ موت کی وادی میں اترتا محسوس کرتا ہے۔ اے ایل ایس کے مریض کی زندگی دو سے تین سال کی مہمان ہوتی ہے، ابھی تک اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔

ہاکنگ 21 سال کی عمر میں اس بیماری کا شکار ہوئے۔ پہلے انگلیاں مفلوج ہوئیں، پھر ہاتھ، بازو،بالائی دھڑ، پاؤں، ٹانگیں اور آخر میں زبان بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ 1965ء میں وہ وہیل چیئر تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اس کے بعد گردن دائیں جانب ڈھلکی اور دوبارہ سیدھی نہ ہو سکی۔ وہ خوراک اور واش روم کیلئے بھی دوسروں کے محتاج ہو گئے۔ آج ان کا پورا جسم مفلوج ہے، صرف پلکوں میں زندگی کی رمق باقی ہے، جی ہاں اسٹیفن صرف پلکیں ہلا سکتے تھے۔

’آئن اسٹائن ‘کی دوسری موت،اسٹیفن ہاکنگ بھی نہیں رہے

طبی ماہرین نے 1974ء میں ہاکنگ کو الوداع کہہ دیاتھا لیکن اس عظیم انسان نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ مفلوج جسم کے ساتھ اسٹیفن نے اپنی نیم مردہ پلکوں پر ہی زندہ رہنے، آگے بڑھنے اور عظیم سائنسدان بننے کا خواب دیکھا۔ ویل چیئر پر بیٹھے اس شخض نے کائنات کے رموز کھولے تو دنیا حیران رہ گئی۔

کیمبرج کے سائبر ماہرین نے ہاکنگ کیلئے ”ٹاکنگ“ کمپیوٹر ایجاد کیا۔کمپیوٹر ویل چیئر پر لگا یا گیا، یہ کمپیوٹر ہاکنگ کی پلکوں کی زبان سمجھتا تھا۔ اسٹیفن اپنے خیالات پلکوں سے کمپیوٹر پر منتقل کرتے تھے۔ خاص زاویے، توازن اور ردھم کے ساتھ ہلتی پلکیں کمپیوٹر کی اسکرین پر لفظ ٹائپ کرتی جاتی ہیں،ساتھ ساتھ اسپیکر یہ الفاظ نشر بھی کرتا رہتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ واحد انسان تھے جو اپنی پلکوں سے بولتے اور پوری دنیا سنتی تھی۔

’آئن اسٹائن ‘کی دوسری موت،اسٹیفن ہاکنگ بھی نہیں رہے

اسٹیفن نے پلکوں کے ذریعے بے شمار کتابیں لکھیں، ”کوانٹم گریویٹی“ اور کائناتی سائنس (کاسمالوجی) کو نیا فلسفہ نئی زبان دی۔ ان کی کتاب ”اے بریف ہسٹری آف ٹائم“ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا، یہ کتاب 237 ہفتے دنیا کی بیسٹ سیلر کتاب رہی جسے’’ادبی شاہکار‘‘کی طرح خریدا اور پڑھا گیا۔

ہاکنگ نے 1990ءکی دہائی میں منفرد کام شروع کیا۔ مایوس لوگوں کو زندگی کی خوبصورتی پر لیکچر دیئے۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں، ادارے اور فرمز اسٹیفن کی خدمات حاصل کرتی رہیں۔ انہیں ویل چیئر سمیت سیکڑوں، ہزاروں افراد کے سامنے اسٹیج پر بٹھا دیا جاتا اور وہ کمپیوٹر کے ذریعے لوگوں سے مخاطب ہوتے ۔

’آئن اسٹائن ‘کی دوسری موت،اسٹیفن ہاکنگ بھی نہیں رہے

وہ اکثر کہتے تھےکہ’’اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں، اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں، اگر میں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضاء سلامت ہیں، جو چل سکتے ہیں، جو دونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے ہیں، جو کھا پی سکتے ہیں، جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اور جو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں، وہ کیوں مایوس ہیں۔

’آئن اسٹائن ‘کی دوسری موت،اسٹیفن ہاکنگ بھی نہیں رہے

عالمی شہرت رکھنے والے نوبل انعام یافتہ سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کی ذہانت نے انہیں دنیا بھر میں ایک معروف نام بنا دیا تھا۔

ہاکنگ ماضی کی مقبول سائنس فکشن فلم ’اسٹار ٹریک‘ میں خود اپنے کردار کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئےتھےاور طنزیہ کارٹون سمپسنز میں بھی ان کے کردار کو پیش کیا گیاتھا۔