• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کومل زیدی
کومل زیدی | 20 مارچ ، 2018

پچاس سال پہلے کی دنیا کیسی تھی؟

پچاس سال پہلے کی دنیا کیسی تھی؟

اگر آج سے پچاس سال پہلے کی دنیا پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کو ویت نام سے شکست کا سامنا ہوا، چیکو سلواکیہ میں ماسکو کو ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ برلن، پیرس اور میکسیکو میں طلباء تحریکیں اُبھر کر سامنے آئیں۔ یہ ذکر ہورہا ہے سال 1968 کا جس پر ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہیں۔۔

ویت نام، امریکا کا بیک ڈائون:

سال 1968 میں ویت نام کے نئے سال کا آغاز ہوتے ہی ہزاروں کی تعداد میں کمیونسٹ فورسز نے ویت نام کے شمالی حصے میں حملہ کردیا تھا جس سے کئی علاقے متاثر ہوئے ان میں سائیگون اور ہیو بھی شامل تھے۔

یہ امریکا اور ویت نام کے درمیان طویل جنگ کا آغاز تھا جس کا اختتام 1975 میں ہوا۔ اس کے بعد کمیونسٹ فورسز نے یہاں کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا تھا اور امریکی اور اتحادی افواج ویت نام میں ناکامی کا منہ دیکھتے ہوئے واپس لوٹ آئیں۔

پچاس سال پہلے کی دنیا کیسی تھی؟

30 اپریل 1975 کو شمالی ویت نام کے ٹینک جنوبی ویت نام کے دارالحکومت سائیگون میں داخل ہو گئے تھے۔ اورنہ صرف داخل ہوگئے تھے بلکہ انہوں نے وہاں قبضہ بھی کرلیا تھا جس کے بعد اس شہر کا نام تبدیل کر کے’ ہو چی من‘ سٹی رکھ دیا گیا تھا۔

6 ویں امریکی صدر لنڈن بی جانسن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک مشاورتی مشن کو عملی جنگ میں دھکیل دیا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب امریکا کے پانچ لاکھ فوجی ویت نام میں تعینات کیے گئے تھے۔

نوجوانوں کی بغاوت:

امریکا اور ویت نام کے درمیان عرصہ دراز سےجاری جنگ سے تنگ آکر نوجوانوں نے اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت شروع کردی تھی۔ امریکا اور یورپ کی یونیورسٹی میں نوجوانوں نے ’یو ایس، گو ہوم‘ کے نعرے بلند کر دیے تھے۔ اس نعرےنے آتے ہی پورے امریکا میں کھلبلی مچادی تھی۔

یونیورسٹی کے بعد نوجوان دنیا بھر کی سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے ان کا مقصد یہی تھا کہ ویت نام سے جاری اس جنگ کا خاتمہ، جنسی آزادی، خواتین کے حقوق اور ماحولیات کی حفاظت کرنا تھا۔

پچاس سال پہلے کی دنیا کیسی تھی؟

جرمنی میں، ایک انقلابی بائیں بازو کے طالب علم رہنما ر’ڈی ڈچچک ‘کے خلاف اپریل میں کی جانے والی قتل کی سازش کے سبب متعدد جرمن شہروں میں بد امنی پھیل گئی۔

فرانس میں، 10 مئی کی رات طالب علموںکا پولیس سے لڑائی کا واقع پیش آیا، اس کے دو دن بعد ہزاروں کارکن بھی طلباء کے احتجاج میں شامل ہو گئے اور کچھ ہفتوں کے لیے ملک کو تقسیم کردیا گیا۔

فرانسیسی صدر چارلس ڈی گوول نے 30 مئی کو نیشنل اسمبلی تحلیل کردی اور پھر جون میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوکر سامنے آئی۔

ان ممالک کے علاوہ اٹلی، ترکی اور جاپان میں بھی ان تحریکوں کی آواز گونجنے لگی۔

میکسیکو میں اولمپک کھیلوں سے قبل پولیس نے اچانک طلبا پر دھاوا بول دیا جس کے باعث 33 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ وہاں موجود غیر ملکیوں کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں33 نہیں بلکہ 200 سے 300 افرادمارے گئے تھے۔

قتل عام:

سال 1968 کو تاریخ کا سیاہ ترین سال کہا جانے لگا کیونکہ اس سال ہزاروں بے گناہ افراد کا کھلے عام قتل ہوا۔ اسی سال 4 اپریل کو نوبل انعام یافتہ’مارٹن لوٹر کنگ‘کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔

ان کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ صدر جانسن نے لوٹر کنگ کی جانب سے بنایا گیا آخری قانون جو کہ شہریوں کے حقوق پرتھا، اس پردستخط کر دیے۔

پچاس سال پہلے کی دنیا کیسی تھی؟

اسی سال 5 جون کو سابق امریکی ’سینیٹر بابی کینیڈی ‘کا بھی قتل ہوا جس میں فلسطینی تارکین وطن ملوث تھے۔

بغاوت کے بادل چیکوسلواکیہ تک جا پہنچے جہاں ’ الیگزینڈر ڈوبسک‘ وہاں کی رولنگ پارٹی کے سربراہ بن گئے اور ساتھ ہی ان کا مقصد لوگوں میں ’سوشلزم ود ہیومن فیس‘ متعاوف کرانا تھا۔

بیافرا کی تباہی:

اسی سال بیافرا میں بھی تباہی کے آثار نمایاں ہونے لگے، بھوک سے مرتے لوگوں کی تصویریں وائرل ہونے لگیں جس کے بعد لوگوں میں انسانیت کا جذبہ بیدار ہوا اور وہاں سرحدوں کی پرواہ کیے بغیر ڈاکٹرز کو بلایا گیا جنہوں نےبے لوث خدمات انجام دیں۔

پچاس سال پہلے کی دنیا کیسی تھی؟

30 مہینے تک جاری رہنے والے اس تنازع سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ صرف بھوک کے سبب مارے گئے۔