انٹرویو: پاکستان کرکٹ ٹیم کا مضبوط پوائنٹ ہمیشہ ہی بولنگ رہی ہے۔ بولنگ میں ایسے ایسے ہیرے ٹیم میں شامل رہے، جنہوں نے اپنی گیند بازی سے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اس کی مثالیں فضل محمود سے حسن علی تک بکھری پڑی ہیں۔
ایک دور عمران خان،عبدالقادر اور سرفراز نواز کا تھا،دوسرا دور وسیم اکرم، وقار یونس اور عاقب جاوید کا تھا،اس کے بعد شعیب اختر، ثقلین مشتاق، عبدالرزاق، اظہر علی بیٹسمینوں کے لئے وبال جان بنے رہے،تو وہ وقت بھی آیا جب محمد عامر، محمد آصف اور سعید اجمل نے بیٹسمینوں کو وکٹ کھو دینے کے ڈر میں مبتلا رکھا اور آج کل عمر گل، حسن علی، جنید خان،محمد عامر اور شاداب خان اپنی گیند بازی سے کرکٹ کےمیدانوں میں دھوم مچارہے ہیں۔
اب قوی امکان ہے کہ جلد ہی قومی کرکٹ کے افق پر ایک اور فاسٹ بولر بھی جگمگائے گا جس کا نام ہے ’مہیندر پال سنگھ‘، جو قومی کرکٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے تو پہلے ’پاکستانی سکھ کرکٹر ‘ہوں گے۔
جنگ ویب سائٹ کے قارئین کےلئے ہم نے مہیندر پال سے گفتگو کی ،اس موقع پر ان کا انداز بیاں جوش وعزم سےبھرپور رہا۔وہ اپنی باتوں میں اب تک کی کارکردگی میں مطمئن اور ’مزید کچھ کرنا ہے‘ کی بے چینی کا حسین امتزاج لگے۔
پاکستان میں ’گریڈ ٹو ‘لیول پر کرکٹ کھیلے والے مہیندرپال سنگھ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کے طالب علم ہیں۔وہ گرمیوں کےموسم میں بھی بھرپور پریکٹس کرتے ہیں۔ ان کا معمول ہے کہ روز صبح 6 بجے اٹھتے ہیں،ڈیڑھ گھنٹے تک ورزش کرتے ہیں، جس میں 40 منٹ تو صرف رننگ کو دیتے ہیں۔ پھر یونیورسٹی جاتے ہیں،ساڑھے 3 بجے سے ساڑھے 7 بجے یعنی 4 گھنٹوں تک کرکٹ کی تربیت پر توجہ دیتےہیں اور پھر گھر واپسی پر پڑھائی کو بھرپور وقت دیتےہیں۔
نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ماحول کو بہترین قرار دینے والے مہیندر پال کہتےہیں کہ وہاں علی ضیا اور مدثر نذر ہر کھلاڑی پر پھر پور توجہ دیتے ہیں، وہاں فٹنس اور ہر ایک کے کھیل میں نکھار لانے پر خوب کام کیا جاتا ہے، سوئنگ کو اپنا ہتھیار سمجھنے والے فاسٹ بولر اپنی تربیت میں سابق فاسٹ بولر محمد اکرم اور عاقب جاویدکے انتہائی مثبت کردار کو سراہتے ہیں، ساتھ ہی وقار یونس کو اپنا آل ٹائم فیوریٹ بولر کہتے اور ان کے انداز کی جم کر تعریف کرتے ہیں اور پر امید ہیں کہ میری سوئنگ بولنگ بھی دنیا میں ایک نام پیدا کرے گی۔
مہیندر پال سنگھ اس بات پریقین رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ ضرور بنیں گے لیکن وہ تب ہی ممکن ہوگا جب میری کارکردگی کا معیار ٹیم میں اس وقت موجود کھلاڑیوں سے بہتر ہوگا،اس کیلئے تیاری کررہا ہوں،آنے والے سیزن میں عمدہ پرفارمنس دکھائوں گا،2016ء میں ایمرجنگ کرکٹر بنا،کئی بین الاقوامی اداروں نے انٹرویوز کئے جس طرح وقار یونس کو ’بھورے والا ایکسپریس‘ اور شعیب اختر کو’ راولپنڈی ایکسپریس ‘کہتےہیں،ویسے ہی ایک بھارتی اخبار نے مجھے ’خالصہ ایکسپریس ‘ لکھا،دنیا بھر میں سکھ کرکٹ کھیلتے ہیں لیکن میں پہلا سکھ فاسٹ بولر ہوں جس کی اسپیڈ 138 سے 140 کے درمیان رہتی ہے۔
فاسٹ بولر نے موجودہ قومی ٹیم میں حسن علی کی بولنگ اور پرفارمنس کو متاثرکن قرار دیا اور ویرات کوہلی کو بہترین بیٹسمین سمجھتے ہیں۔ اپنے پہلے پاکستانی سکھ کرکٹر ہونے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ مجھ سے پہلے بھی دو سکھ کرکٹ کھیلتے تھے لیکن پتا نہیں انہیں مواقع نہیں ملے یا انہوں نے محنت نہیں کی، بہرحال وہ آگے نہیں آسکے لیکن اس وقت میں واحد سکھ کرکٹر ہوں،یہی وجہ ہے کہ مجھے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بھرپور فیور ملتی ہے اور وہاں بھرپور ٹریننگ کرتا ہوں۔
پاکستان سپر لیگ کی کسی بھی ٹیم میں شمولیت نہ ہو پانے کے بارے میں سکھ فاسٹ بولر نے بتایا کہ لاہور قلندرز کے کیمپ شامل رہا۔ عاقب جاوید سے بولنگ کے کئی گر سیکھے، محنت بھی کی، کشمیر سے تعلق رکھنے والے فاسٹ بولر اور مجھ میں سے کسی ایک نے لاہور قلندرز کو جوائن کرنا تھا،قرعہ فال کشمیری فاسٹ بولر کے نام نکلا،دکھ تو ہوا لیکن ساتھ کی مطمئن بھی تھا۔میں نہیں تو پاکستان کی شہ رگ سے بولر میدان میں اترے گا،ایک بات اور ہے جو میں سمجھتا ہوں،مجھ میں کہیں کمی تھی جو میں رہ گیا،بہتر بنوں گا ٹیم میں شامل ہو جاؤں گا۔
آج تک کرکٹ کھیلنے بیرون ملک نہیں گیا،آفر بھی آئیں لیکن میری خواہش اور کوشش ہے کہ صرف پاکستان کی نمائندگی کروں اور اسی کی طرف سے باہر کھیلنے جاؤں، بہتری کی گنجائش تو رہتی ہے،ملک میں امن آگیا ہے، پی ایس ایل کے میچز ہوئے، ویسٹ انڈیز ٹیم آئی اور بھی ٹیمیں آئیں گی،قومی کرکٹ میں بھی بہتری آئے گی۔
قومی ٹیم میں شمولیت سے پہلے ہی میڈیا پر خوب ساری شہرت مل جانے کے سوال پر مہیندر پال سنگھ نے کہا کہ ہاں ایسا ہے ،مجھ میڈیا اور چاہنےوالوں نے محبت دی ،سابق اور موجودہ کرکٹرز نے تربیت میں معاونت بھی دی،یہ سارا عمل آپ کو جہاں اعتماد دیتا ہے ،وہیں آپ کی ذمہ داری بھی بڑھا دیتا ہےکہ مجھے خود کو منوانا ہے،معیار پر پورا بھی اترنا ہےاور جو کچھ مثبت میرے بارے میں کہا جارہا ہے ،اسے درست ثابت کرنا ۔