بالی ووڈ اسٹار سنجے دت کی آٹو بائیو گرافی پر مبنی فلم ‘سنجو ‘ دیکھتے ہوئے مجھے لگا کہ’ سنجے دت 5 سال کی سزا پر جیل جانے سے قبل اپنی زندگی کو درست انداز سے پیش کرنے کے لئے آٹو بائیو گرافر ڈھونڈ رہے تھے مگر جیل سے نکلتے ہی انہوں نے راج کمار ہیرانی کی مدد سے’ سنجو‘ بنا کر اپنے کردار کا اجلا پن سب کے سامنے رکھ دیا۔
آٹو بائیوگرافی یا موٹی ویشنل کہانی
فلم کی کہانی،اس کی پیشکش کا انداز اور کرداروں کی اداکاری شاندار ہے، سنجو ساتھ ہی کچھ سوالات بھی دیکھنے والوں کے لئے چھوڑ گئی،جیسے کیا واقعی یہ فلم آٹو بائیوگرافی پر مبنی پر ہے یا پھر اسے موٹی ویشنل کہانی کہا جائے؟
اس بات کو یوں کہا جاسکتا ہےکہ آپ کسی برائی میں جیسے منشیات وغیرہ میں مبتلا ہیں اور اس سے نکلنا چاہتےہیں تو اس پر کیسے ’ فتح ‘ پائیں گے؟ اس لت سے نکالنے کے لئےخود کو کیسے منائیں گے کہ ’رک جانا نہیں تو کہیں ہار کے‘ آپ کا سلوگن بن جائے۔
دہشت گردوں یا جرائم پیشہ عناصر بلکہ یوں کہہ لیں،بھائی لوگوں کی طرف سے آپ کو دھمکیاں مل رہی ہیں، وہ آپ کی شخصیت کو کیش کروا رہے ہیں، ان کے خوف سے نجات کےلئے کیا جائے؟ خود کو کیسے ’ سرجھکا کے جیو، نہ منہ چھپا کے جیو‘ جیسے عنوان پر تیار کریں گے؟
پریس آپ کو دہشت گردوں کا ساتھی بلکہ دہشت گرد ثابت کرنے کےلئے جھوٹی سچی خبریں لگارہا ہے،وہ چیز بھی آپ سے منسوب کی جارہی ہے جو آپ نے کی نہیں،لوگ آپ کا حوصلہ توڑنے کی کوشش کررہے،آپ کا کیرئیر دائو پر لگ گیا، ایسے میں آپ کو بتایا جائے کہ ’ کچھ تو لوگ کہیں گے،لوگوں کا کام ہے کہنا ‘ کو اپنی زندگی کا اصول بنالو اور ذہن نشین کرلو کہ ’دنیا میں رہنا ہے تو کام کر پیارے،ہاتھ جوڑ سب کو سلام کر پیارے‘ ہی میں آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔
’باپ بیٹے کی محبت پر مبنی کہانی‘
فلم ’سنجو ‘دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک اور بات آئی، کیا فلم میں سنیل دت اور سنجے دت کی محبت ،دونوں جانب سے قربانی اور ایک دوسرے کیلئے فکر کا جذبہ غالب ہے؟
ایک طرف باپ کی باتیں دل سے لگا کر منشیات کی لت میں پڑنے والا بیٹا ہے،وہیں فلم انڈسٹری میں اس کےلئے راستہ بنانے کی کوشش کرنے والا باپ ہے،ایک طرف سے ہرطرح سے لاابالی پن ہے، دوسری طرف اسے آزاد کرکے آگے بڑھانے کا جذبہ ہے،ایک طرف زندگی اور اس کی مشکلات سے فرار کی کوشش ہے تو دوسری طرف سے محبت اور پیار ہے اور زندگی میں ٹھہرائو لانے کی تلقین ہے،ایک طرف بیٹا جیل کے فرش پر بغیر پنکھے کے سو رہا ہے تو باپ گھر میں ایسی ہی حالت میں رہتا ہے، بیٹا جیل سے رہائی کے خواب دیکھتا ہے اور باپ اس کی رہائی کےلئے جگہ جگہ دھکے کھاتا وہ بھی ممبر آف پارلیمنٹ ہوتے ہوئے،ایک طرف فلموں کی غلط چوائس ہورہی ہے تو دوسری طرف درست فلم کیسے منتخب کی جائے کا انداز سکھایا جارہا ہے۔
’دوستی اور محبت کے رخ سمجھاتی کہانی‘
ایک دوست نما دشمن آپ کو منشیات کا عادی بناتا ہے،دنیا بھر کے نشے سے آپ کو روشناس کراتا ہےاور جب آپ کی زندگی کا مثبت رخ سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے تو اس میں بھی روڑے اٹکاتا ہے، دوسرا دوست آپ کو پولیس سے بچاتاہے،دوستی اور احترام کا نیا رخ سکھاتا ہے،بری عادت سے چھٹکارے میں معاونت دیتا ہے،قربانی دیتا ہے، مشکل وقت میں ساتھ کھڑا رہتا ہے،وہ غلط فہمی کے باعث دور چلاجاتا ہے مگر سچ سامنے آنے پر لوٹ آتا ہے، سنجو ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھاتی ہے آپ کی اکثر خرابیاں ’غلط سنگت‘ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
’سنجو ‘میں محبت کا ایک رخ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ مشکل وقت میں بیوی کیسے اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی رہتی ہے،آٹو بائیو گرافرکو کیسے کہانی لکھنے کےلئے تیارکرتی ہے۔
’ادکاری ‘
رنبیر کپور نے اتنی شاندار اداکاری کی ہے کہ لگتا نہیں کہ فلم میں سنجے دت موجود نہیں،ان کا کردار وہ شخص کررہا ہے جو حقیقی زندگی میں ان سے تقریباً20 سال چھوٹا ہے۔
سونم کپور نے لاحاصل محبوبہ،منیشا کوئرالہ نے والدہ نرگس، انوشکا شرما نے آٹو بائیوگرافر کے کردار اس انداز سے نبھائے کہ سنجے دت کی کہانی دیکھنے والوں پر خوب عیاں ہوتی ہے۔
وہیں پاریش راول نے سنیل دت، وکی کوشل نے سچے دوست اور دیا مرزا نےبیوی کے کردار کو اسے ادا کیا لوگ ایسا باپ، دوست اور بیوی چاہیں۔
راج کمار ہیرانی نے تھری ایڈیٹ،پی کے ،منا بھائی ایم بی بی ایس اور لگے رہو منا بھائی کے بعد آج کی نسل کو ایسا تحفہ دیا ہے کہ وہ اس سے درست پیغام لیں، اس میں انہیں معاشرے میں پھیلی نفرت، تعصب، قانونی موشگافیوں،زرد صحافت کی طرف سے درست اشارے انہیں مل جائیں گے۔
فلم کے ذریعے انہوں نے آج کے نوجوان کو سمجھانےکی کوشش کی ہے کہ ناکام تو ہوں گےمگر کامیابی بھی ملے گی،خود شناسی کا عمل کیسے دوہرایا جائے، دکھ درد کا وقتی علاج انسان کےلئے زہر قاتل ہے،خاص طور پر سنیل دت کی گانوں والی فلاسفی تو کمال کی رہی ہے۔
فلم اس انداز سے پیش کی گئی ہے کہ آپ دیکھتے دیکھتے ہنس پڑیں اور ہوسکتا ہے چند لمحوں بعد دل اداس بھی ہوجائے لیکن آپ بور نہیں ہوں گے،راج کمار ہیرانی نے اس فلم میں ہر چیز متناسب انداز میں دیکھنے والوں تک پہنچائی ہے۔
اس فلم کی کہانی ہی نہیں ڈائریکشن،مکالمے،اداکاری،موسیقی اور منظر نگاری آئوٹ اسٹینڈنگ ہے،بھارتی فلموں پر تنقید کرنے والوں نے اسے 5 میں ساڑھے 4 جبکہ فلم بینوں اسے 4اعشاریہ 7 نمبر دئیے ہیں۔
فلم نے کئی ریکارڈ توڑ دئیے ہیں،یقینی طور پر فلم بزنس کے لحاظ سے آگے جائے گی۔ راج کمار ہیرانی اپنی فلموں کےذریعے فلم بینوں کا ٹیسٹ ڈیولپ کررہے ہیں،باقی ہدایت کاربھی اس راستے پر چلے تو کافی اچھی فلمیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔