پشاور اور گردونواح میں بہنے والے دریاؤں میں 24 مختلف اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جن میں سب سے زیادہ لذیذ ’شیر ماہی‘ہے۔
اب یہ مچھلی آلودگی اور غیر قانونی شکار کے باعث نایاب ہوتی جارہی ہے۔
پشاور اور اس کے گردو نواح میں بہنے والے دریاؤں میں یوں تو کئی اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں لیکن شیر ماہی کو ان مچھلیوں کی سردار کہا جاتا ہے۔
دریائے کابل اور اس سے نکلنےوالے دیگر دریاؤں میں پائی جانے والی مچھلیاں گرم پانی کی مچھلیاں کہلاتی ہیں، یہ مچھلیاں پشاور، چارسدہ، نوشہرہ میں شکار کی جاتی ہیں۔
مجموعی طورپر 24 اقسام کی مچھلیاں ان دریاؤں میں پائی جاتی ہیںتاہم ان میں سب سے زیادہ پسند کی جانے والی مچھلی ’شیر ماہی‘ ہے، جو کیٹ فش کی فیملی سےتعلق رکھتی ہے۔
شیرماہی لمبائی میں 12 انچ تک ہوتی ہے، دریاؤں میں کی آلودگی اور غیر قانونی شکار کے باعث اب یہ نسل ناپید ہوتی جارہی ہے۔
ہر سال مارچ اور اپریل ان مچھلیوں کا بریڈنگ سیزن ہوتا ہے، جون سے اگست تک مچھلیوں کے شکار پر پابندی ہوتی ہے لیکن دریاؤں میں غیر قانونی شکار جاری رہتا ہے۔
سلور، ماہ شیراور گراس جیسی مچھلیاں تو تالاب میں بھی پرورش پالیتی ہیں لیکن ’ شیر ماہی‘ جیسی نایاب نسل، حساسیت کے باعث مصنوعی تالابوں میں نشوونما نہیں پاسکتی، جس کے لے تازہ پانی اور مخصوص آب و ہوا ضروری ہوتی ہے۔
شیرماہی کا غیر قانونی شکار روکنے کے لیے محکمہ ماہی پروری کے پاس پشاور اور چارسدہ میں صرف 24 واچرز ہیں، جبکہ مچھلیوں کے غیر قانونی شکار پر صرف 50 روپے فی مچھلی جرمانہ اور قیدکی حد چھ ماہ تک ہے۔
محکمہ ماہی پروری غیر قانونی شکار سے زیادہ دریاؤں کی آلودگی کو مچھلیوں کی بقاء کے لیے بڑا چیلنج قرار دیتا ہے، فیکٹریوں کا فضلہ اور کیمیکل بھرا پانی نکاسی کے نالوں کے ذریعے ان دریاؤں میں بہایا جاتا ہے۔