سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاونٹس کیس میں ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی ضمانت کے کیس میں ریمارکس میں کہا کہ ڈاکٹر ڈنشا جیسے عمر رسیدہ شخص کو پکڑلیا، باقی 27 لوگ آزاد ہیں، نیب کا یہ رویہ جانبداری ظاہر کرتا ہے، اسی وجہ سے نیب پر صبح سے شام تک باتیں ہوتی ہیں، کیس میں نیب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
جعلی بینک اکاونٹس کیس میں ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی ضمانت کے کیس پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت کا اپنے ریمارکس میں نیب پراسیکوٹرسے کہنا تھا کہ نیب کی وجہ سے لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے، چیئرمین نیب اورآپکےسوا ایک شخص بتائیں جو نیب کی تعریف کرتا ہو۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے نیب پراسیکوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں پیسہ جن دوافراد کو جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے، عوامی عہدہ رکھنے والوں کا احتساب ہر صورت ہونا چاہیے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ عدالت موجودہ کیس میں نیب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے، 20 ماہ سے ایک بندہ جیل میں ہے جبکہ مرکزی کردار آزاد گھوم رہے ہیں، ا س پر نیب پراسیکوٹر نے بتایا کہ جن لوگوں نے تعاون نہیں کیا یا پلی بارگین کی درخواست نہیں کی انہیں گرفتار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب کی وجہ سے لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے، جاپان میں احتساب اور قانون کی بالادستی ہمارے لیے ایک مثال ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہاکہ کوئی معمولی الزامات پر گرفتار ہوجاتا کوئی سنگین جرم کرکے بھی آزاد گھومتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ سے کئی ملزمان کی ڈھائی سال بعد ریفرنس دائر نہ ہونے پر ضمانتیں ہوئیں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کا احتساب ہر صورت ہونا چاہیے، نیب اپنے قانون کا اطلاق سب پر یکساں نہیں کررہا، نیب نے ایک سال سے ملزمان کی پلی بارگین درخواستوں پر فیصلہ کیوں نہیں کیا؟
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ نیب کا یہ رویہ جانبداری ظاہر کرتا ہے، نیب کا طریقہ کار اس کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے، سندھ میں پیسہ جن 2 افراد کو جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔
جسٹس سجاد نے نیب پراسیکوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک بڑے آدمی کو موٹروے پر گرفتار کرلیا جاتا ہے جیسے وہ کہیں بھاگ جائے گا، پراسیکوٹر جنرل نیب نے اس پر جواب دیا کہ اس شخص کو نیب نے نہیں پکڑا تھا، جسٹس سجاد نے کہا کہ چیرمین نیب اور آپکے سوا ایک شخص بتائیں جو نیب کی تعریف کرتا ہو،جن ملزمان کو پکڑا گیا ہے وہ کٹھ پتلی ہیں۔
جسٹس مظاہرعلی اکبر نے کہا کہ ڈاکٹر ڈنشا جیسے عمر رسیدہ شخص کو پکڑلیا باقی 27 لوگ آزاد ہیں، انہی وجوہات کی وجہ سے نیب پرصبح سے شام تک باتیں ہوتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ 29 ملزمان میں سے 2 کے علاوہ دیگر کے خلاف کارروائی نا کرنے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں، پراسیکوٹرجنرل نیب لندن میں بیٹھ کر پلی بارگین کرنے والے کی قانونی حیثیت بتانے سے قاصر رہے۔