مردم شماری کے بعد بلدیاتی انتخابات کرائیں

August 08, 2013

سپریم کورٹ پاکستان کا سب سے زیادہ قابل احترام اور مقدس ادارہ ہے‘ اس کے تقدس کا احترام ہر ایک پر لازم ہے‘ سپریم کورٹ کے احکامات ہیں کہ چونکہ ملک میں عام انتخابات ہوچکے ہیں لہٰذا سارے صوبے بلدیاتی نظام کے قوانین بناکر پہلی فرصت میں اپنے یہاں بلدیاتی انتخابات کرائیں‘ سپریم کورٹ کے یہ احکامات سر آنکھوں پر‘ ویسے بھی اصولی طور پر یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ملک میں آئین کے مطابق بلدیاتی انتخابات ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ جمہوریت نچلی سطح سے پروان چڑھے‘ بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے سپریم کورٹ نے Dead line بھی مقرر کردی ہے‘ یہ سب باتیں درست ہیں مگر آئین کے چند تقاضوں اور خودسپریم کورٹ کے ایک دو سال پہلے کے احکامات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں کے کچھ حلقوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے غور کے لئے چند معروضات ہیں جو ہم یہاں پیش کرنا چاہتے ہیں‘ ان معروضات کا تعلق مردم شماری سے متعلق شقوں سے ہے یا 2010 ء میں اور پھر 2011 ء میں سپریم کورٹ کی طرف سے خاص طور پر کراچی میں حلقہ بندیوں اور ریونیو یونٹس کو متعلقہ قوانین کے مطابق بنانے سے متعلق ہیں‘ یہ بات بڑے کرب سے تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ اس ملک کے حکمران طبقوں نے جو سلوک آئین کے ساتھ کیا ہے یا اب بھی کررہے ہیں وہ قطعی طور پر کوئی مہذب قوم نہیں کرسکتی‘ اوّل تو آزادی کے بعد پاکستان کافی عرصہ تک بے آئین رہا‘ پہلی بار 1956 ء میں آئین بنایا گیا‘ وہ خود بھی اس لحاظ سے متنازعہ تھی کہ یہ اسمبلی آزادی سے منتخب ہوئی تھی‘ ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ آزادی کے بعد ملک بھر میں نئے سرے سے انتخابات ہوتے اور ملک میں پہلی آئین ساز اسمبلی وجود میں لائی جاتی‘ مگر یہ نہیں کیا گیا‘ بہرحال 1956 ء جیسی اسمبلی نے بھی آئین بنایا مگر اسے بھی نہیں چلنے دیا گیا اور 1958 ء میں ملک میں مارشل لا لگ گیا‘ اسی مارشل لا حکومت نے 1962 ء میں آئین دیا‘ جس اسمبلی نے یہ آئین دیا اس کی بنیاد تسلیم شدہ جمہوری اصول "one man, one vote" کے بجائے محدود تعداد میں ملک بھر میں منتخب کیے جانے والے بیسک ڈیمو کریٹ تھے‘ بعد میں ملک ٹوٹا اور جب ملک کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے تو پہلی منتخب عوامی اسمبلی نے 1973ء میں ملک کا پہلا آئین بنایا۔ آئین کے مطابق ہر دس سال کے بعد ملک میں مرد شماری کرانی ہوتی ہے مگر کیا ہم نے ایسے کیا ؟ حالانکہ یہ روایت آزادی حاصل کرنے سے پہلے سے چلی آرہی تھی‘ جب ماضی میں جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جب تک ہم 1935 ء ایکٹ پر عمل کرتے رہے اس دور میں یقینی طور پر ٹھیک دس سال کے بعد 1951 ء میں پاکستان کی پہلی مردم شماری ہوئی‘ اس کے بعد پھر دس سال کے بعد 1961 ء میں ملک کی دوسری مردم شماری ہوئی‘ بعد میں مردم شماری 1971 ء میں ہونا تھی مگر مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کی وجہ سے 1971 ء میں نہ ہوسکی‘ بہرحال یہ مردم شماری 1972 ء میں ہوئی‘ بعد میں مردم شماری 1981 ء میں ہوئی اس کے بعد مردم شماری 1991 ء میں ہونا تھی جو بدقسمتی سے مختلف وجوہات کی بنا پر بار بار ملتوی ہوتی رہی‘ یہ مردم شماری پھر 1998 ء میں ہوسکی‘ اس مردم شماری پر بھی کئی اعتراضات کیے گئے‘ اس کے بعد مردم شماری 2008 ء میں ہونی تھی مگر نہ 2008 ء میں ہوسکی نہ 2009 ء میں اور نہ 2010 ء میں ہوسکی‘ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ہم آئینی تقاضوں کو کیوں اس طرح بلڈوز کررہے ہیں‘ بعد میں 2011 ء میں مردم شماری کرانے کا اعلان کیا گیا‘ پہلے مرحلے کے طور پر خانہ شماری ہوئی مگر اس پر کئی اطراف سے اعتراضات کیے گئے اور خاص طور پر کراچی میں کی گئی خانہ شماری پر شدید اعتراضات کیے گئے‘ بعد میں شاید خانہ شماری کے اس سارے عمل کو فائل کردیا گیا اور یہ کہہ کر مردم شماری ملتوی کردی گئی۔
اب اگر مردم شماری کرائی گئی تو عام انتخابات ملتوی کرنے پڑیں گے‘ اب یہ 2013 ء ہے‘ کیا یہ سب کچھ آئین کی صریح خلاف ورزی نہیں ہے۔ ؟ بڑے ادب سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آئین کے تحت اب سب سے پہلے ایک شفاف مردم شماری کرانا قابل احترام و اعلیٰ عدلیہ کی پہلی اولیت نہیں ہونی چاہئے ؟ خاص طور پر سندھ کے عوام کا موقف ہے کہ قبلہ پہلے مردم شماری کرائیں اور دیکھیں کہ 1998 ء سے اب تک کس صوبے اور کس صوبے کے کن کن علاقوں کی آبادی بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے‘ کیا 1998ء کی متنازع مردم شماری کی بنیاد پر سندھ میں اور خاص طور پر کراچی میں حلقہ بندیوں میں بڑے پیمانے پر فرق نہیں آئے گا؟ یہ بہت ضروری ہے کہ اب بلدیاتی انتخابات سے پہلے مردم شماری کرائی جائے جو ہر لحاظ سے شفاف ہو‘ سندھ مزید کسی بھی غیر شفاف حساس عمل کو برداشت نہیں کرسکتا‘ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ سندھ کے مختلف علاقوں خاص طور پر اس کے بڑے شہر کراچی میں کتنی بڑی تعداد میں illegal immigrants آکر بس گئے ہیں جن کو نہ فقط نادرا نے این آئی سی جاری کردیا ہے بلکہ 2011 ء میں ہونے والی گھر شماری میں بھی ان کو رجسٹر کردیا گیا ہے‘ یہ بہت ضروری ہے کہ نئی خانہ شماری اور نئی مردم شماری کراتے وقت سخت احکامات جاری کیے جائیں کہ ان دونوں مرحلوں پر ان غیر قانونی غیر ملکیوں کو کسی طور پر بھی رجسٹر نہ کیا جائے۔ اس مرحلے پراس بات کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں مردم شماری کا باقاعدہ ادارہ ابھی تک قائم نہیں ہوسکا اور نہ اس سلسلے میں پروفیشنل اور ماہر لوگوں کو اس ادارے کے مستقل عملے میں شامل کیا گیا ہے۔ اب تک اسلام آباد کے مرکزی سیکریٹریٹ کے شماریات ڈویژن میں مردم شماری کے بارے میں ایک محدود سا سیل ہے‘ مردم شماریوں کے نتیجے میں قوموں کی قسمتیں بنتی ہیں‘ دنیا کے دیگر ملکوں میں مردم شماری کے انتہائی منظم ادارے ہوتے ہیں جو انتہائی پروفیشنل لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں‘ ہم پاکستان میں ایسے حساس ایشوز پر کب تک ایسا غیر سنجیدہ اور غیر معقول رویہ اختیار کرتے رہیں گے۔؟ اب تو 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد مردم شماری فیڈرل لسٹ پارٹ 2- کا حصہ ہے اور اب مردم شماری کرانا سی سی آئی کے دائرہ اختیار میں آگیا ہے لہذا بہت ضروری ہے کہ سی سی آئی سیکریٹریٹ مردم شماری کے ادارے کو ملک بھر میں منظم کرکے اسے الگ مستقل ادارہ بنایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی مردم شماری کے نتیجے میں جو 15 سال کے بعد ہورہی ہوگی نہ فقط سارے ملک میں‘ نہ فقط سندھ بھر میں بلکہ خاص طور پر کراچی شہر کی حلقہ بندیاں بڑے پیمانے پر تبدیل ہوجائیں گی ، مردم شماری کے بغیر اگر بلدیاتی انتخابات کرائے گئے توکیا یہ ساری مشق بیکار ثابت نہیں ہوگی؟ ۔ لہذا ضروری ہے کہ یہ بلنڈر نہ کیا جائے ورنہ اس کے کئی خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں‘ ویسے بھی اگر فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے ہیں تو کیا یہ فیصلہ خود سپریم کورٹ کی طرف سے 2010 ء میں اور بعد میں 2011 ء میں کیے گئے اعتراضات اور ان کو درست کرنے کے سلسلے میں عدالت کی طرف سے کیے گئے احکامات سے انحراف نہیں ہوگا۔؟ واضح رہے کہ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ نے پہلا آرڈر 6 دسمبر 2011 ء کو جاری کیا تھا جس میں نہ صرف کراچی میں حلقہ بندیوں پر متعلقہ قوانین کے مطابق نظرثانی کا حکم دیا تھا بلکہ اس آرڈر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سیاسی محاذ آرائی سے بچنے اور نسلی کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے انتظامی یونٹوں مثلاً پولیس اسٹیشنوں اور ریونیو کے یونٹوں کی حدود کو اس طرح تبدیل کرنا پڑے گا کہ مختلف برادریوں کے لوگ آپس میں امن اور آشتی کے ساتھ رہ سکیں ، بجائے اس کے کہ مختلف گروپ دعوے کرتے رہیں کہ فلاں علاقے ان کے ہیں اور انکے خوف کے اثر کے تحت مختلف علاقوں کو ”نوگو ایریاز“ قرار دیں بعد میں اس آرڈر کی وضاحت میں سپریم کورٹ نے ایک اور سوموٹو آرڈر اکتوبر 2012 ء میں جاری کیا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ 2013 ء کے انتخابات سے پہلے نہ حکومت نے ان ہدایات پر عمل کیا اور نہ الیکشن کمیشن نے عمل کیا‘ افسوس تو یہ ہے کہ بعد میں شاید ہماری قابل احترام عدلیہ بھی اپنی ان ہدایات پر عملدرآمد کرانا بھول گئی‘ دیکھا جائے تو 2013 ء کے انتخابات سے پہلے مردم شماری نہ کرانے اور سپریم کورٹ کے ان احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان انتخابات کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے‘ اب تک جو ہوا سو ہوا مگر اب تو آئین پر عمل کیا جائے ، اعلیٰ عدلیہ اپنے ان احکامات پر پہلے عمل کرائے اور بعد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی بات کی جائے۔