اور چولہے بُجھ گئے

November 24, 2021

شوکت تھانوی اور پطرس کے بائیسکل کے گرد گھومتے مضامین اس لیے شدّت سے یاد آرہے ہیں کہ ایک تو ان میں غریب کی سواری کا ذکر ہے،دوم، اس کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ پاکستان کے غریب آدمی سے بہت حد تک ملتا جلتا ہے۔تاہم تازہ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں جہاں آئے روز گاڑیوں اور موٹرسائیکلز کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں اب غریب کی سواری ،یعنی ،بائیسکل کی قیمت بھی بڑھا دی گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق پیٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے بعد لوگ سائیکل خریدنے کا سوچ رہے ہیں، تاہم چین کی اور مقامی ساختہ بائیسکل کی قیمت میں دس ہزار روپے اضافہ کر دیا گیا ہے۔

ملک میں ان دنوں گیس کابحران ہے،عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہوگئی ہے،لیکن دونوں طرف کے سیاسی جغادری ان حالات میں بھی الفاظ کی چاند ماری سے باز نہیں آرہے۔جن کی نااہلی کی وجہ سے یہ بحران آیا وہ اس بارے میں سوال کرنے والوں سے خفا ہورہے ہیں اور جو اس ناہلی کو بھگت رہے ہیں (یعنی عوام)وہ ذرایع ابلاغ کے ذریعے اپنی خفگی کا بر ملا اظہار کررہے ہیں۔لوگ یہ سب تماشا دیکھ رہے ہیں اور یہ بُھگتان بُھگتنے کے لیے متبادل کا انتظام کرنے پر بھی مجبور ہیں۔

پیٹرول کے نرخ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچے تو بہت سوں نے موٹر کار کا استعمال ترک کرکے موٹر سائیکل کی نشست سنبھال لی اورجس کے لیے موٹر سائیکل کا مزید استعمال استطاعت سے باہر ہوگیااس نے مسافر بس کے ذریعے کام چلانا شروع کردیااور جس کے لیے ممکن ہے اس نے بائیسکل کی سواری شروع کردی۔

مٹّی کے تیل ،گیس اور بجلی کے نرخ آسمان پر پہنچے تو بعضوں نے چولہے ٹھنڈے ہونے سے بچانے کے لیے لکڑی اور کوئلے کا استعمال شروع کر دیا اور بعضوں نےایل پی جی سلنڈرسے مدد لینا شروع کی ، لیکن ستیاناس ہو عالمی منڈی کے ساہُوکاروں اور ملک میں موجود ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کاکہ لکڑی،کوئلے اور ایل پی جی کے نرخ بھی عام آدمی کی سانس اکھاڑنے لگے۔ان حالات میں لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا ہم ترقّیِ معکوس کررہے ہیں اور کیا ہمیں اب جنگلوں اور غاروں کی جانب رخ کرنا ہوگا ؟

بائیسکل، شوکت تھانوی اور پطرس

لوگوں کےاس طرح کے سوالات کا جواب دینا ماہرینِ سماجیات اور بشریات کا کام ہے، لیکن اس صورتِ حال میں راقم جیسے بہت سے افراد کو یقینااردو کے ممتاز مزاح نگار،شوکت تھانوی کا مزاحیہ مضمون ’’بائیسکل کی تعلیم‘‘یاد آرہا ہوگا۔ ان کے مزاح میں بے تکلفی اور بے ساختگی ہے۔ لفظوں اور محاوروں کی موزونیت سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ فطرتاً ظریف ہیں۔ ان کے یہاں طنز کم اور مزاح زیادہ ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ قاری غیر ضروری طور پرطنز کا شکار رہے ۔ وہ ایک باغ و بہار شخصیت تھے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ وہ بات سے بات پیدا کرنے کے فن سے آگاہ ہیں اور اپنی معلومات اور مشاہدات سے اپنی تحریروں میں نیرنگی پیدا کرتے ہیں۔ ان کی زبان شگفتہ اور سادہ ہے۔ ان کی تحریر کی اسی سادگی نے انہیں مقبولِ عام و خاص بنایا۔ بائیسکل کی تعلیم ان کا نمائندہ مضمون ہے جس میں شوق‘ عشق کی حدتک چلا جاتا ہے۔

اس مضمون میں نو عمری کی ایک عام سی خواہش اور اس کی تکمیل میں پیش آنے والے واقعات اور مشکلات کو مصنف نے بہت خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ مضمون نگار کو سائیکل چلانے کا شوق جنون کی حد تک تھا تاکہ اس پر سوار ہوکر وہ سیر و تفریح سے لطف اندوز ہو سکے۔ کم عمری کے باعث شرط رکھی گئی کہ وہ پہلے سائیکل چلانا سیکھ لے تو پھر نئی سائیکل خرید کر دی جاسکتی ہے۔

دوسری جانب یہ اصرار تھا کہ سائیکل ہو تو سیکھا جائے ۔ یہ گفت و شنید جاری تھی کہ حسنِ اتفاق سے ایک دن ایک بزرگ سائیکل پر سوار ہوکر گھر پر ملاقات کے لیےتشریف لائے۔ ایسا موقع تو کبھی کبھی ملتا ہے۔ وہ ملاقات میں مصروف رہے اور مصنف نے سائیکل اٹھائی اور سڑک پر آگئے۔اب تو سائیکل چلانی ہی تھی۔جو اس پر چڑھنے کی کوشش کی تو حادثات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔

پہلی بار مصنف سائیکل کے فریم میں الجھ کر گر پڑا، پھر کوشش کی تو پھر گرپڑا۔ پھر سوار ہوکر کچھ دورچلا تو مگر توازن برقرار نہ رہا اور سائیکل ایک گدھے سے جا ٹکرائی‘ پھرا ٹھا، ہاتھ پاؤں جھاڑے اور درخت کے سہارے گدّی پر بیٹھا‘ کچھ دور چلاتوسائیکل پل سے جاٹکرائی اور خود نالے میں گرتے گرتے بچے۔ مگر شوق تو عشق کی حد تک تھا‘ لہذاباز نہ آیا۔ زرا سنبھل کر آگے بڑھا تو سڑک پر گزرنے والی ایک بوڑھی دھوبن سے جا ٹکرایا۔ وہ گالیاں دیتی رہی اور یہ ان کی منت سماجت کرتے رہے بڑی مشکل سے جان چھوٹی۔ اب سوار نہ ہونے کا خیال آیا ہی تھا کہ ہمت نے پھر شوق کو بھڑکایا۔یہ پھر اٹھے اور سائیکل پر جابیٹھے۔اتفاقاً ایک بزرگ تسبیح پڑھتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ اب کی دفعہ سائیکل ان سے جا ٹکرائی۔

وہ گرے اور یہ ان کے اوپر تھے۔ وہ بزرگ اپنی سادہ لوحی سے سمجھے کہ شاید یہ موت کا فرشتہ ہے اور اس نے آن دبوچا ہے۔ یہ فوراً اٹھے اور ان سے معذرت کرنے لگے ۔وہ بےچارے خاموش رہے اور صرف گھورتے رہے۔ اب جو مصنف نے سائیکل کا جائزہ لیا تو یہ انکشاف ہواکہ سائیکل کا ہینڈل گھوم کر دوسری جانب چلا گیا ہے اور اس کا زاویہ تبدیل ہو گیاہے۔ اب اسے سیدھا کس طرح کیا جائے؟ مصنف اس فن سے ناواقف تھا، یعنی ہینڈل سیدھا کرنا مشکل تھا، لہذا بائیسکل کی یہ تعلیم نامکمل چھوڑ کر مڑی ہوئی سائیکل لے کر گھر پہنچا۔ اب جو گھر والوں نے اس کے ساتھ سلوک کیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ یعنی پھر اس کے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی۔

اس مضمون میں جو کردار پیش کیا گیا ہے ،اس پر جو کچھ گزرتی ہے وہ پاکستان کے غریب آدمی کی بپتا محسوس ہوتی ہے۔ وہ ایک بحران سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاوں مارتا ہے تو کسی دوسری مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔موجودہ دور میں بائیسکل کی اہمیت اور نرخ بڑھ گئے ہیں لہذا مرزا کی بائیسکل(پطرس بخاری)بھی یاد آرہی ہے۔کاروانِ طنزو مزاح میں پطرس بخاری اوائل دورکے سپہ سالارکہے جاتے ہیں۔

انہوں نے کم لکھا ، لیکن اپنے نوک قلم سے ایسے موتی بکھیر دیے ہیں جن کی چمک سے ظرافت کا میدان جگمگا اٹھا۔ ’’مرحوم کی یاد میں ‘‘ ،پطرس بخاری کا لکھا ہوا مقبول مضمون ہے ۔ان کے مضامین میں خالص اور بھرپور مزاح سے کام لیاگیا ہے ۔

طنز کی طرف ان کا جھکائو بہت کم تھا۔ان کامزاح بالکل صاف اورشستہ ہے۔وہ جو قصّہ یا واقعہ پیش کرتے ہیں، اس کی منظر کشی اس انداز سے کرتے ہیں کہ پورا نقشہ قاری کے سامنے جلوہ گر ہوجاتاہے۔’’مرحوم کی یاد میں‘‘، اسی قبیلے کا مضمون ہے جس میں مرزاکی سائیکل کا قصّہ بہت مزاحیہ انداز میں بیان کیا گیا ہے اورقاری پڑھتے پڑھتے محسوس کرتا ہے کہ وہ خود اس سائیکل پر سوار ہوکر سیر کو نکلا ہے۔غریب کے خواب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

رات کو بستر پر لیٹا تو بائیسکل پر سیر کرنے کے مختلف پروگرام تجویز کرتا رہا۔ یہ ارادہ تو پختہ کرلیا کہ دو تین دن کے اندر اندر اردگرد کی تمام مشہور تاریخی عمارات اور کھنڈروں کو نئے سرے سے دیکھ ڈالوں گا۔ اس کے بعد اگلے گرمی کے موسم میں ہوسکا تو بائیسکل پر کشمیر وغیرہ کی سیر کروں گا۔ صبح صبح کی ہوا خوری کے ليے ہر روز نہر تک جایا کروں گا۔

شام کو ٹھنڈی سڑک پر جہاں اور لوگ سیر کو نکلیں گے میں بھی سڑک کی صاف شفاف سطح پر ہلکے ہلکے خاموشی کے ساتھ ہاتھی دانت کی ایک گیند کی مانند گزرجاؤں گا۔ ڈوبتے ہوئے آفتاب کی روشنی بائیسکل کے چمکیلے حصوں پر پڑے گی تو بائیسکل جگمگا اُٹھے گی اور ایسا معلوم ہوگا جیسے ایک راج ہنس زمین کے ساتھ ساتھ اُڑ رہاہے۔ وہ مسکراہٹ جس کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں ابھی تک میرے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی۔ بارہا دل چاہا کہ ابھی بھاگ کر جاؤں اور اسی وقت مرزا کو گلے لگالوں‘‘۔

مضمون کے یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں،ایسا لگتا ہے کہ بائیسکل نہیں بلکہ پاکستان کے کسی غریب کی حالتِ زار بیان کررہے ہیں:

’’آخر کا ر بائیسکل پر سوار ہوا ، پہلا ہی پائوں چلایا تو معلوم ہوا کہ جیسے کوئی مردہ ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہورہا ہو۔۔۔۔گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوڑی سی اترائی تھی ، اس پر بائیسکل خود بخود چلنے لگی ،لیکن اس رفتار سے کہ جیسے تارکول زمین پر بہتا ہے اور ساتھ ہی مختلف حصوں سے طرح طرح کی آوازیں برآمد ہونا شروع ہوئیں ۔ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے۔چیں چاں، چوں کی قسم کی آوازیں زیادہ تر گدّی کے نیچے اور پیچھے پہیوں سے نکلتی تھیں۔۔۔۔کھٹ ،کھڑ ،کھرڑ کھرڑ کے قبیلے کی آوازیں مڈگارڈوں سے آتی تھیں۔چر،چرخ قسم کے ُسر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔

زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی ۔جب کبھی میں پیڈل پرزور ڈالتا تھا زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوجاتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑ چڑا کر بولنے لگتی تھی اورپھر ڈھیلی ہوجاتی تھی۔پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا تھا، یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا، اس کے علاوہ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چناں چہ سڑک پر جو بھی نشان بن جاتا تھااسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے‘‘۔

’’اگلے پہیّے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا، جس کی وجہ سے پہیّہ ہر چکر میں ایک دفعہ اوپر کو اٹھ جاتا تھا۔اور میرا سر یوں جھٹکے کھارہا تھا جیسے کوئی متواتر ٹھوڑی کے نیچے مکّے مار ے جارہا ہو۔پچھلے اور اگلے پہیّے کو ملاکر چوں چوں، پھٹ پھٹ، چوں چوں کی صدا نکل رہی تھی۔جب اتار پر سائیکل ذرا تیز ہوئی تو فضا میں ایک بھونچال سا آگیا اور بائیسکل کے کئی پرزے جو اب تک سورہے تھے ،بےدار ہوکر گویا ہوئے ۔

ادہر ادہر کے لوگ چونکے ، مائوں نے اپنے بچوں کو سینوں سے لگالیا ۔ کھرڑ کھرڑ کے بیچ میں پہیوں کی آواز جدا سنائی دے رہی تھی۔لیکن چوں کہ بائیسکل اب پہلے سے زیادہ تیز تھی اس لیے چوں چوں، پھٹ پھٹ، چوں چوں، پھٹ پھٹ کی آواز نے اب چچوں پھٹ ،چچوں پھٹ، کی صورت اختیار کرلی۔تما م بائیسکل کسی ادق افریقی کی زبان کی گردانیں دہرارہی تھی‘‘۔

’’اس قدر تیز رفتاری بائیسکل کی طبع نازک پر گراں گزری۔ چناں چہ اس میں یک لخت دو تبدیلیاں واقع ہوگئیں۔ ایک تو ہینڈل ایک طرف کو مڑ گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں جاتو سامنے کو رہا تھا لیکن میرا تمام جسم دائیں طرف کو مڑا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بائیسکل کی گدّی دفعتاچھ انچ کے قریب نیچے بیٹھ گئی۔ چنان چہ جب پیڈل چلانے کے ليے میں ٹانگیں اوپر نیچے کر رہا تھا تو میرے گھٹنے میری تھوڑی تک پہنچ جاتے تھے۔ کمردہری ہو کر باہر کو نکلی ہوئی تھی اور ساتھ ہی اگلے پہیے کی اٹھکھیلیوں کی وجہ سے سر برابر جھٹکے کھا رہا تھا۔

گدّی کا نیچا ہوجانا ازحد تکلیف دہ ثابت ہوا۔ اس لیے میں نے مناسب یہی سمجھا کہ اس کو ٹھیک کرلوں۔ چنان چہ میں نے بائیسکل کو ٹھہرا لیا اور نیچے اترا۔ بائیسکل کے ٹھہر جانے سے یک لخت جیسے دنیا میں ایک خاموشی سی چھا گئی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے میں کسی ریل کے اسٹیشن سے نکل کر باہر آگیا ہوں۔ جیب سے میں نے اوزار نکالا، گدّی کو اونچا کیا، کچھ ہینڈل کو ٹھیک کیا اور دوبارہ سوار ہوگیا۔

دس قدم بھی چلنے نہ پایا تھا کہ اب کے ہینڈل یک لخت نیچا ہوگیا۔ اتنا کہ گدّی اب ہینڈل سے کوئی فٹ بھر اونچی تھی۔ میرا تمام جسم آگے کو جھکا ہوا تھا، تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا، جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ آپ میری حالت کو تصوّر کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں دورسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہو۔ مجھے اس مشابہت کا احساس بہت تیز تھا جس کی وجہ سے میرے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ میں دائیں بائیں لوگوں کوکنکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا۔ یوں تو ہر شخص میل بھر پہلے ہی سے مڑ مڑ کر دیکھنے لگتا تھا لیکن ان میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے لیے میری مصیبت ضیافت طبع کا باعث نہ ہو‘‘۔

غریب کی سواری اُس کی دست رس سے باہر ہوگئی

شوکت تھانوی اور پطرس کے بائیسکل کے گرد گھومتے مضامین اس لیے شدّت سے یا آرہے ہیں کہ ایک تو ان میں غریب کی سواری کا ذکر ہے،دوم، اس کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ پاکستان کے غریب آدمی سے بہت حد تک ملتا جلتا ہے۔تاہم تازہ صورت حال یہ ہے کہ ملک میں جہاں آئے روز گاڑیوں اور موٹرسائیکلز کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں اب غریب کی سواری ،یعنی ،بائیسکل کی قیمت بھی بڑھا دی گئی ہے۔اطلاعات کے مطابق پیٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے بعد لوگ سائیکل خریدنے کا سوچ رہے ہیں، تاہم چین کی اور مقامی ساختہ بائیسکل کی قیمت میں دس ہزار روپے اضافہ کر دیا گیا ہے۔

چناں چہ نئی بائیسکل خریدنے کے لیے بازار جانے والے قیمتیں سن کرچکرا گئے ہیں، کیوں کہ پہلے کے مقابلے میں قیمتیں تقریبا پچاس فی صدتک بڑھ چکی ہیں۔ ڈیلرز کے مطابق جون کے مہینے میں چین کی ساختہ نئی بائیسکل کی قیمت بارہ ہزار روپے تھی جو نومبر کے پہلے ہفتے میں بڑھ کر بائیس ہزار روپے تک پہنچ گئی تھی۔ علاوہ ازیں دیگر ممالک سے آنے والی استعمال شدہ بائیسکلزکے نرخوں میں بھی آٹھ ہزار روپے اضافہ ہوچکا ہے۔

مرے کو مارے سو دُرّے

اطلاعات کے مطابق پشاور میں گیس کی لوڈ شیڈنگ بہت بڑھنے کی وجہ سے لکڑیوں کی مانگ میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے لکڑی کی قیمتوں میں بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوگیا ہے ۔موسم سرماشروع ہوتے ہی گیس کی بندش اور گھنٹوں لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے۔ دوسری جانب متبادل کے طورپراستعمال ہونے والی ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ ہوا جس کے بعد شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے گھروں میں روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے اور زیادہ اخراجات سے بچنے کے لیے لکڑیوں کا استعمال شروع کر دیا ہے جس کے بعد لکڑیوں کی مانگ میں اضافہ ہونے سے اس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور فی من کے حساب سےچار سو روپے کا اضافہ ہواہے جس کے بعد لکڑی کے فی من نرخ آٹھ سو روپے سے بڑھ کربارہ سوروپے تک جاپہنچے ہیں۔

ملک کے مختلف علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق چند روز قبل تک فی من لکڑی سات سو روپے فی من کے حساب سے مل رہی تھی،لیکن آج اس کی قیمت آٹھ سو سے بارہ سو روپے فی من وصول کی جا رہی ہے۔ کوئلہ بھی ساٹھ روپے فی کلو تک بڑھ چکا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ گیس اور لکڑی کے استعمال سے ان کے اخراجات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لکڑیاں اور کوئلہ فروخت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں اضافے کے ساتھ ملک میں جنگلات کی کمی کے باعث لکڑی کی رسد کم ہوتی جا رہی ہے، اسی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت گیس کی قلت دور کرے تا کہ وہ منہگے داموں کوئلہ اور لکڑی خریدنے سے بچ سکیں۔ لیکن حکومت بھی کیا کرے اگر وہ گیس فراہم کردے تب بھی وہ عوام کے لیے بہت منہگی ہی ہوگی ، کیوں کہ عالمی ساہو کارتوانائی کے ذرایع پرقابض ہیں اور من چاہے نرخ وصول کررہے ہیں۔کچھ لوگوں نے اس ضمن میں کووڈ کو بھی ڈھال بنایا ہوا ہے۔

یہ کیا کھیل ہے؟

تیل اور گیس کے بڑھتے ہوئے نرخوں اور ان کی طلب میں اضافے کے ضمن میں یہ بتایا جارہا ہے کہ عالمی معیشت جیسے جیسے کورونا کے اثرات سے باہر آنے لگی ، 2021 میں ویسے ویسے خام تیل کی عالمی مانگ بڑھتی چلی گئی اور اس کے نتیجے میں قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔تیل کی عالمی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی ایک اور وجہ اوپیک پلس گروپ کے ممالک کی طرف سےمحدود سپلائی کو جاری رکھنا ہے۔

وبائی مرض کورونا کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والی یہ معیشتیں پیداوار میں سستی سے اضافہ کر رہی ہیں جس کے باعث تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اس وقت یورپ اور ایشیا میں گیس کی قلت ہے جس نے بجلی کی پیداوار کے لیے تیل کی طلب میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ جیسے جیسے کوئلے کی سپلائی چین کم ہوئی ، اس کے نتیجے میں بھی عالمی مارکیٹ میں تیل کی مانگ میں اضافہ ہوا۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت کی جانب سے بھی پاکستان میں پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔تیل کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب کئی اشیا کی پیداوار اور نقل و حمل کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں ایندھن کے نرخوں میں اضافہ منہگائی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔برینٹ خام تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ایکویٹی مارکیٹس میں بھی قلیل مدتی گھبراہٹ پیدا کرسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ موسم سرما سے قبل گیس کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا،جس نے کچھ صارفین کو گیس سے خام تیل کی طرف آنے پر آمادہ کیا۔کہا جارہا ہے کہ قدرتی گیس کی انتہائی زیادہ قیمتیں قدرتی گیس کی جگہ تیل کی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ کرسکتی ہیں۔ لیکن ہم نے اس سے پہلے کبھی اس طرح کی صورت حال کا تجربہ نہیں کیا جس میں قدرتی گیس کی قیمتیں تیل کی قیمت سے دوگنی ہوں۔

توانائی کے شعبے کے بعض ماہرین حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پچھلے دور حکومت میں قدرتی گیس کی کمی دور کرنے کے لیے قطر سے ایل این جی کی درآمد کے معاہدے کیے گئے اور ملک میں بروقت اس کی درآمد یقینی بنانے کے ساتھ پورے ملک میں اس کی ترسیل کا نظام بھی قائم کیا گیاتھا۔ اس کے مقابلے میں موجودہ حکم رانوں سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ جن اوقات میں ایل این جی کی خریداری کے سستے سودے کیے جا سکتے تھے تب یہ کر لیتے اور اب جو منہگے داموں ایل این جی کی خریداری کے سودے کیے وہاں ملکی ضرورت کے مطابق چودہ کارگوز منگوانے کے بجائے صرف بارہ کارگوز کے سودے کرنے میں بہ مشکل کام یاب ہو سکے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ابھی جب کہ سردیوں کا پوری طرح آغاز بھی نہیں ہوا ہے ملک بھر میں گیس کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔

گیس کی قلت اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے چند دنوں میں تین سو روپے سے زاید اضافے کے ساتھ لکڑی اب نو سو نوّے روپے فی من فروخت ہو رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں چند روز قبل تک سترہ سو روپے میں ملنے والا گھریلو گیس کے سلنڈر کی قیمت تین ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں چوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ اس دوران بھی پریشر بہت کم ہوتا ہے۔ پھر دیہی علاقوں میں تو سرے سے گیس بند ہی کر دی گئی ہیں ۔ یہاں تک صنعتیں بھی رو رہی ہے کہ گیس نہیں مل رہی ۔