کیا سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے میں سنجیدہ ہے

November 25, 2021

الیکشن کمیشن کی جانب سے سندھ کو بلدیاتی انتخاب کی تیاریوں کے لیے آخری مہلت دیئےجانے کے بعد سیاسی جاعتوں نےاپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کردی ہے گرچہ اپوزیشن جماعتیں وفاقی حکومت کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں تاہم محسوس ہوتا ہے کہ منقسم اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیاں حکومت ہٹانے کے بجائے کارکنوں کو متحرک رکھنے کے لیے ہیں جسکے لیے وہ صوبے بھر میں جلسے ،جلوس اور ریلیاں منعقد کررہے ہیں ایک جانب اپوزیشن جماعتیں وفاقی حکومت پر تنقید کررہی ہے تو دوسری جانب پی ڈی ایم اورپی پی پی ایک دوسرے پر شدید لفظی گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہیں ادھر سندھ ہائیکورٹ نے قومی مردم شماری کے نتائج جاری نہ کرنے اور سندھ میں بلدیاتی انتخاب سے متعلق دائر درخواستوں پر تحریری جواب کے ساتھ تمام دستاویزات منسلک کرکے پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جبکہ الیکشن کمیشن نے حکومت سندھ کوبلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے آخری مہلت دے دی ہے اور کہاہے کہ30 نومبر تک کام مکمل کرکے دستاویزات کمیشن کے حوالے کئے جائیں،بصورت دیگر یکم دسمبر سے سندھ میں حلقہ بندیایاں شروع کردی جائیں گی، الیکشن کمیشن سندھ نے الیکشن کمیشن میں کارروائی سے متعلق تفصیلات جمع کرادی، سندھ حکومت سے بلدیاتی الیکشن سے متعلق ضروری قانون سازی حلقہ بندیاں اور ڈیٹاطلب کرلیا۔ اور کہا ہے کہ عدم فراہمی کی صورت میں خود ہی حلقہ بندیاں کا عمل شروع کردیں گے، واضح رہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے وقتاًفوقتاً مہلت طلب کرتی رہی ہے۔

الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ ،سندھ حکومت کے رویے سے لگتا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کرانے میں سنجیدہ نہیں، سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مدت 30 اگست 2020 کوختم ہوگئی تھی، بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے بعد 120 دن میں الیکشن نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ادھر جماعت اسلامی کے امیر محمدحسین محنتی نے بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں سندھ بھر کا دورہ شروع کردیا ہے بدین میں کارکنوں سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم بلدیاتی انتخابات میں بھرپورحصہ لیں گے اور یوتھ کی ٹیم اتاردیں گے بعض حلقوں کے مطابق جماعت اسلامی بھی پی ٹی آئی کی طرح یوتھ کواپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کررہی ہے ادھراتوار کے روز کراچی کے علاقے سچل گوٹھ میں سابق یو سی وائس چیئرمین مولا بخش چند کیجانب سے پارٹی کے منعقدہ یوم تاسیس کی تقریب کے موقعے پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

نثار کھوڑو نے کہا کےایم کیو ایم نے مردم شماری کے معاملے سندھ کے بجائے وفاقی حکومت کا ساتھ دے کر سودے بازی کی ہے۔ مردم شماری میں کسی صوبے کی آبادی کم ہوگی تو اس صوبے کو این ایف سی میں حصہ کم ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کے مردم شماری کے دوران سندھ کی آبادی کم ظاھر کرکے سندھ کو این ایف سی میں اپنے جائز حصے سے محروم رکھنے کی سازش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کے ہر سال تین فیصد آبادی بڑھنے کے باجود مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو نظر انداز کرکے کم گنا گیا ہے جس پر سندھ کے اعتراضات پر مبنی ریفرنس کو رد کیا گیا ہے اور سندھ کے ساتھ غداری کے اس عمل میں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے برابر کی شریک ہیں انہوں نے کہا کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانا چاھتے ہیں جس کےلئے بلدیاتی قانون میں بھتری کے لئے ترامیم کی ضرورت ہے۔

ادھر مانکی شریف نوشہرو میں خطاب کرتے ہوئے پی پی پی کے چئر مین بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی قیادت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 70سالہ کھلاڑی کا وقت ختم اور نوجوانوں کا وقت شروع ہونے والا ہے اس ملک میں سلکٹروں کے کندھوں پر سوار ہو کر تبدیلی نہیں تباہی لائی گئی لیکن ہم کپتان کو اس کے گھر میں گھس کر شکست دینگے اور ملک میں عوامی راج لائیں گے جبکہ جے یو ٓآئی بھی 27 نومبر کو لاڑکانہ میں بھر پور عوامی قوت کا مظاہرہ کریگی جسکے لیے جے یوآئی سندھ کی تیاریاں عروج پر ہے ضلع کند کوٹ میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے صوبائی جنرل سیکٹری علامہ راشد محمود سومرو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاڑکانہ جلسہ ملک اور سندہ کے حکمرانوں کے خلاف عوامی ریفرنڈم ثابت ہوگا مولانا فضل الرحمن صاحب کی قیادت مین نااہل نالائق سلکٹیڈ اور چور حکومت کو گھر بھیجیں گے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ سندہ مین اب متبادل قوت و قیادت جمعت علماء اسلام ہی ہے دوسری جانب سندھ اسمبلی نےٹی ٹی پی سے وفاق کے مزکرات کے خلاف قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی ۔ادھر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان تنازعات بڑھتے جارہے ہیں وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے کسٹیبلشمنٹ ڈویژن کوکہا ہے کہ افسران کو خط لکھ کر تنگ نہ کرے،لڑنا ہے تو سندھ کابینہ سے لڑے ، پی اے ایس اور پی ایس پی افسران فیڈریشن کے ملازم ہیں مشاورت کے بغیر سندھ سے تبادلے کئے گئے مشاورت کے بغیر سندھ سے دوسرے صوبوں سے افسران کو یہاں بھیجا گیا وفاق ہمیں کام کرنے سے روکنا چاہتا ہے۔

افسران کے تبادلوں کے معاملے پر سندھ حکومت اور وفاق میں ٹھن گئی ہے۔سندھ حکومت نے ایک کروڑ80لاکھ زرعی اراضی غیرآباد ہونے کی ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دے دیا صوبائی وزیر ماحولیات اسماعیل راہو نے کہاہے کہ وفاق نے اپنی رپورٹ میں اطراف کیا ہے کہ پانی کم ملنے کی وجہ سے سندھ کی ایک کروڑ 80لاکھ زرعی زمین غیرآباد ہے سندھ کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ وزیرماحولیات نے مزید کہا کہ پنجاب میں آبی ذخائر کے نئے منصوبے سندھ کے پانی پر مزید ڈھاکا ڈالنے کی سازش ہے۔

ادھر سندھ سمیت کراچی میں گیس کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے ۔مشیر تجارت عبدالرزاق داؤنے میٹ دی پریس میں اعتراف کیا ہے کہ گیس نہیں ہے آنے والے دنوں میں بحران ہوگا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ملک میں گیس کی قلت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ عوام کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے ہیں جبکہ وفاقی وزراء گیس بحران کے حل کے بجائے مناظرے کے چیلنج میں مصروف ہیں۔

اپوزیشن اور وفاق کے درمیان اگرچہ دوریاں بڑھ گئی ہیں تاہم اپوزیشن کے رویوں سے ایسا ہرگز محسوس نہیں ہوتا کہ وہ وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔اگر ایسی کوئی کوشش ہوتی تواپوزیشن منقسم ہونے کی بجائے یکجا ہوتی۔ پیپلزپارٹی کے سینئررہنما خورشید شاہ نے کہاہے کہ جیل میں نہ ہوتا تو پی ڈی ایم اتحاد بچانے کی کوشش کرتا۔ ان کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی پی پی کے سنجیدہ حلقے اپوزیشن کو ایک دیکھنا چاہتے ہیں۔