کان اور ایمان میں گڑ بڑ

August 19, 2013

آپ کے کان کبھی بند ہوئے ہیں؟اگر نہیں ہوئے تو پہلے ایک ہفتے کے لئے اپنے کان بند کروائیں تاکہ آپ کو پتہ چل سکے کہ کان بند ہونے کی صورت میں انسان کی کیا حالت ہوتی ہے؟میرے کان عید کی دوسری صبح آہستہ آہستہ بند ہونا شروع اور شام تک دایاں کان پوری طرح بند ہوچکا تھاتاہم بائیں کان میں زند گی کے کچھ آثار موجود تھے ،اب پرابلم یہ تھا کہ عید کے تین دنوں میں کسی ای این ٹی سپیشلٹ تک رسائی ممکن نہیں تھی، البتہ اس دوران پروفیسر ڈاکٹر راشد ضیاء کا عید مبارک کا فون آیا تو یہ ان کی محبت تھی کہ انہوں نے مجھے میرے گھر آکر دیکھنے کی پیشکش کی لیکن میں جانتا تھا کہ یہ مسئلہ صرف کلینک میں ضروری آلات کے ساتھ ہی حل ہوسکتا ہے، سو میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس دوران ناصر شیخ(چکوالی) کے بھانجے نوجوان کارڈیالوجسٹ نے میری بہت مدد کی اور آخر میں بلکہ ”بالآخر“پروفیسر ڈاکٹر اظہر حمید کی مسیحائی ہی میرے کام آئی جنہیں میرے کان زبانی یاد ہوچکے ہیں کہ جب کبھی یہ گڑ بڑ کرتے ہیں اظہر حمید ہی انہیں کھینچ کر راہ راست پر لاتے ہیں۔ کان بند ہونے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والے عجائبات کی تفصیل میں آگے چل کر بیان کروں گا مگر اس سے پہلے ایک مشورے کا ذکر ضروری ہے جو یہ تھا کہ آپ ”پروفیسر حکیم محمد سلیمان “ کے پاس جائیں ان کے لئے کانوں کا علاج بہت معمولی سی بات ہے اور سچ پوچھیں تو میں اسی وجہ سے ان کے پاس نہیں گیا کہ معمولی مرض کو تو لفٹ ہی نہیں کراتے بلکہ ان کے اشتہارات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چار فٹ قد میں ایک دو فٹ کا اضافہ کرسکتے ہیں، ساری دنیا کے سائنسدان شوگر کے مستقل علاج کے لئے برس ہا برس سے سرگرداں نظر آتے ہیں مگر ابھی تک اس میں کامیاب نہیں ہوسکے جبکہ ہمارے”حکیم پروفیسر سلیمان صاحب“ اس کا علاج مستقل بنیادوں پر شرطیہ کرتے ہیں، یہی سلوک حکیم صاحب ہر اس بیماری کے ساتھ کرنے کے دعویدار ہیں جن کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا۔ ہمارے یہ حکیم صاحب بیک وقت آرتھوپیڈک معالج بھی ہیں، کارڈیالوجسٹ بھی ہیں،”سیکسا لوجسٹ“ اور ”ایڈز“یالوجسٹ بھی ہیں اور وہ سب کچھ ہیں جن کی بابت مغربی دنیا کو پتہ چلے تو انہیں نوبل پرائز بھی دیں اور فارماسوٹیکل کمپنیاں انہیں اربوں ڈالربطور”ہدیہ“ بھی پیش کریں، مگر ”پروفیسر حکیم سلیمان صاحب“ اور ان ایسے سینکڑوں دوسرے اشتہاری معالجوں کی یہ درویش منشی ہے کہ وہ اس دنیاداری میں پڑنے کی بجائے اپنی گڈری میں جہلا کے درمیان بیٹھے خوش نظر آتے ہیں، کان کا مرض تو ان کے لئے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا چنانچہ میں نے ان سے رجوع کرنا اور یوں انہیں زحمت دینا مناسب نہیں سمجھا۔باقی رہی وہ بپتا جو سنانے کے لئے میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں، تو ہوا یوں کہ جب میرا ڈیڑھ کان بند ہوگیا تو مجھے لگا میری دنیا اندھیر ہوگئی ہے۔”ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم“ والی صورتحال تھی۔ مخاطب مجھ سے بات کررہا ہوتا تھا مگر میں دیدے پھاڑے اس کی طرف دیکھتا رہتا تھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ، اس میں سب سے تکلیف دہ مرحلہ وہ تھا جب میرے ایک دوست کے دادا جان نے مجھے مخاطب کرکے کہا”بزرگو! آپ کو کچھ سنائی بھی دے رہا ہے کہ نہیں“ اس میں سے صرف لفظ”بزرگو“ مجھے سنائی دیا تھا جو جان لیوا تھا ۔بس بچ بچاؤ ہوگیا کہ اپنے دوست کے دادا کا احترام مانع تھا لیکن یہ داستان الم تو کافی طویل ہے۔ ڈیڑھ کان بند ہونے سے آہستہ آہستہ دماغ بھی بند ہوگیا۔ فلو کا احساس بھی ہوا، آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا بھی چھانے لگا، اس کے ساتھ ڈپریشن بھی شروع ہوگیا، میرے ارد گرد اہل خانہ بیٹھے آپس میں باتیں کرتے تھے اور میرا دیدہ حیران انہیں سننا تو کجا، صحیح طرح دیکھ بھی نہ پاتا تھا۔ میں ان کے درمیان یوں گم سم بیٹھا تھا جیسے ایک مشاعرے کے بعد برادرم روحی کنجاہی سب دوستوں کے درمیان گم سم بیٹھے تھے۔ جب وہ کافی دیر تک اسی کیفیت میں مبتلا رہے تو عابد امیر(مرحوم)اپنی جگہ سے اٹھے روحی کنجاہی کے پاس گئے اور انہیں کاندھے سے ہلا کر کہا”بزرگو،باتھ روم وغیرہ ہی سے ہو آؤ“،بہرحال مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ صرف کان بند ہونے سے دنیا اندھیر ہوجاتی ہے۔
مگر مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ کان بند ہونا اور اس کے اثرات دماغ ،بینائی اور جسم کے باقی تمام اعضاء پر مرتب ہونا اللہ کی نعمت بھی ہے چنانچہ جب سے میں دوبارہ صحتمند ہوا ہوں ،دوبارہ ایک عذاب میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ ٹی وی دیکھنے لگا ہوں، اخبار پڑھنے لگا ہوں، اب مجھے اسلام آباد میں کھیلے جانے والا پانچ گھنٹے کے دورانیہ کا خوفناک ڈرامہ بھی دیکھنا پڑتا ہے، سیلاب زدگان کی بے بسی دیکھنا پڑتی ہے، دہشتگردی کی کامیاب وارداتوں کی خبریں سننا اور پڑھنا اور دیکھنا پڑتی ہیں، جہالت ،تنگ نظری، عدم برداشت، معاشی، معاشرتی، سماجی اور مذہبی استحصال کے المناک مناظر نظروں سے گزرتے ہیں۔ بے پناہ غربت کے شکار لاکھوں عوام اور بے پناہ خوشحالی کے حامل ناشکرے افراد، دونوں کی دلخراش باتیں سننا پڑتی ہیں، پہلے میں جسمانی عذاب میں مبتلا تھا، اب میں روحانی عذاب میں مبتلا ہوں۔ جسمانی عذاب کا علاج تو بہرحال کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا ہے۔ کیا روحانی عذاب کا علاج بھی کسی کے پاس ہے؟
میں اس کالم کے ابھی اس حصے تک پہنچا تھا کہ اچانک میرا دھیان دنیا بھر کے حکمرانوں کی طرف چلا گیا اور مجھے خیال آیا کہ ہم سب یونہی ان بے چاروں کو کوستے رہتے ہیں اور انہیں بے حس قرار دیتے ہیں، حالانکہ ان کے تو کان بند ہیں تاہم میں نے یہ بھی سوچا کہ کیا ایک عام آدمی اور ایک حکمران کے کان”ہم مرتبہ“ ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے بالکل نہیں کہ دنیا بھر کے عوام اپنے جو حکمران منتخب کرتے ہیں انہیں ان کی دیکھنے، سننے اور سوچنے سمجھنے کی بے پناہ صلاحیتوں کی وجہ سے کرتے ہیں اور اگر ان کے کان بند ہوجائیں اور پھر اس کے نتیجے میں وہ ساری صلاحیتیں بے کار ہوجائیں جن کی مدد سے وہ اپنے عوام کو بھی مصائب سے نکالتے ہیں اور دنیا کو بھی جنگ کی بجائے امن کا تحفہ دیتے ہیں تو پھر صورتحال مختلف ہوجاتی ہے۔ور یوں میرا کان اور حکمرانوں کے کان”ہم مرتبہ“ نہیں رہتے ۔ اس وقت مصر کا ظالم فرعون مصر کے جمہوریت پسند عوام کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کررہا ہے۔اور امریکہ پوری دنیا میں دہشتگردی کا ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بنا ہوا ہے۔
اس طرح دنیا کے باقی ممالک کے عوام جن مختلف النوع عذابوں سے گزر رہے ہیں یہ سب ان حکمرانوں کے کان بند ہونے کی وجہ سے ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ان سب کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹر اظہر حمید سے اپنے کانوں کا معائنہ کرائیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو ایک امکان بلکہ غالب امکان یہ بھی تو ہے کہ ان کے کان میں نہیں ان کے ایمان میں گڑ بڑ ہے۔ یہ حکمران
اب تو آرام سے گزرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے
والے مقولے نما شعر پر عمل پیرا ہیں، ان کے ”ایمان“ کی اصلاح کے لئے تخت و تاج اچھا لنا ہی پڑتے ہیں۔ اس کے بغیر کسی نے ان کی اصلاح ہوتے دیکھی نہیں ہے۔